aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
داغ دہلوی ان مستند اساتذہ سخن میں شمار کئے جاتے ہیں، جن کی شہرت و مقبولیت استنادی حیثیت کی ہے ۔ ان کی غیر معمولی شہرت نے ان کو شاعری کے آسمان پر پہنچا دیا۔ داغ، زبان کے بادشاہ ہیں اور زبان پر جو قدرت انھیں حاصل تھی وہ کسی دوسرے کو نصیب نہ ہوسکی۔فصاحت و سادگی کے ساتھ ساتھ ان کے کلام میں شوخی ظرافت اور خاص بانکپن پایا جاتا ہے۔ ان کا کلام اردو زبان کے محاوروں اور روز مرہ بول چال کا خزانہ ہے۔ محاورے دوسروں نے بھی استعمال کیے ہیں لیکن داغ کی طرح بے ساختہ پن کہیں نہیں پایا جاتا۔انھیں بلبل ہندوستان ،جہاں استاد،ناظم یار جنگ،دبیر الملک اور فصیح الملک کے خطابات سے نوازا گیا،زیر نظر کتاب داغ دہلوی کا دیوان ہے، جو ایک طرح سے انتخاب ہے، جس میں اشعار کو حروف ابجد کے اعتبار سے پیش کیا گیاہے۔
Nawab Mirza Khan Dagh Dehlavi (1831-1905), was born and brought up in the red fort of Delhi where his mother was married to prince Mirza Mohammad Sultan, son of Bahadur Shah Zafar. After his father’s death, he had to leave the red fort, and after the fall of Delhi in 1857, he had to move to Rampur where he lived in comfort for more than a decade. Later, his changing conditions, for good or bad, took him to other centres of renown like Lucknow, Patna, Calcutta, and Hyderabad.
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free