aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
خواجہ الطاف حسین حالی اردو کے نامورشاعر، نقاد اور سوانح نگار ہیں۔ حالی نے اپنی شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا ۔ ابتدائی دور کی غزلوں میں روایتی رنگ پوری طرح موجود ہے ۔ زبان میں رنگینی اور دل کشی بھی ہے لیکن حالی غزل کے قدیم رنگ سخن سے سخت بیزار تھے ۔ چنانچہ لاہور سے دہلی آنے کے بعد 1875 ء سے انھوں نے نئے رنگ اور نئے انداز کی غزل گوئی کا آغاز کیا ۔ حالی کی جدید غزل اخلاقی اور اصلاحی خیالات کی ترجمان ہے۔ حالی کا نظریہ یہ تھا کہ علم و ادب اور شعر و حکمت کے ذرائع کو اصلاح معاشرہ اور تہذیب اخلاق کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ استعمال کیا جانا چاہئے ۔ چنانچہ وہ جدید ادب کی تحریک کے علمبرداروں میں شامل ہوگئے۔ زیر نطر حالی کا دیوان ہے جس میں قطعات، غزلیں، قصیدے، مرثیے، رباعیاں، تاریخیں اور متفرق اشعار شامل ہیں۔ جہاں حالی کے قدیم و جدید دونوں رنگ دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ دیوان کے اس نسخہ میں رشید حسن حان کا طویل مقدمہ بھی شامل ہے۔
اردو نثر و نظم کے مجدد اور تنقید کے بانی
خواجہ الطاف حسین حالی اردو ادب کے پہلے ریفارمر اور بہت بڑے محسن ہیں۔وہ بیک وقت شاعر،نثر نگار،نقّاد صاحب طرز سوانح نگار اور مصلح قوم ہیں جنھوں نے ادبی اور معاشرتی سطح پر زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو محسوس کیا اور ادب و معاشرت کو ان تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ ان کی تین اہم کتابیں "حیات سعدی، "یادگار غالب" اور "حیات جاوید" سوانح عمریاں بھی ہیں اور تنقیدیں بھی۔"مقدمۂ شعر و شاعری" کے ذریعہ انھوں نے اردو میں باقاعدہ تنقید کی بنیاد رکھی اور شعر و شاعری کے تعلق سے اک مکمل اور حیات آفریں نظریہ مرتب کیا اور پھر اس کی روشنی میں شاعری پر تبصرہ کیا۔اب اردو تنقید کے جو سانچے ہیں وہ حالی کے بناے ہوئے ہیں اور اب جن چیزوں پر زور دیا جاتا ہے، ان کی طرف سب سے پہلے حالی نے اپنے مقدمہ میں توجہ دلائی۔ ا پنی مسدس ( مثنوی مدؔ و جزر اسلام) میں وہ قوم کی زبوں حالی پر خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلایا۔ مسدس نے سارے ملک میں جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ سر سید احمد خان کہا کرتے تھے کہ اگر روز محشر خدا نے پوچھا کہ دنیا سے اپنے ساتھ کیا لایا تو کہہ دون گا کہ حالی سے مسدس لکھوائی۔
الطاف حسین حالی 1837 ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔نو برس کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ان کی پرورش اور تربیت ان کے بڑے بھائی نے پدرانہ شفقت سے کی۔حالی نے ابتدائی تعلیم پانی پت میں ہی حاصل کی اور قرآن حفظ کیا 17 سال کی عمر میں ان کی شادی کردی گئی۔ شادی کے بعد ان کو روزگار کی فکر لاحق ہوئی چنانچہ ایک دن جب ان کی اہلیہ اپنے میکہ گئی ہوئی تھیں،وہ کسی کو بتائے بغیر پیدل اور خالی ہاتھ دہلی آ گئے۔ حالی کو باقاعدہ تعلیم کا موقع نہیں ملا ۔پانی پت اور دہلی میں انھوں نے کسی ترتیب و نظام کے بغیر فارسی ،عربی،فلسفہ و منطق اور حدیث و تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ادب میں انھوں نے جو خاص بصیرت حاصل کی وہ ان کے اپنے شوق ،مطالعہ اور محنت کی بدولت تھی۔ دہلی کے قیام کے دوران وہ مرزا غالب کی خدمت میں حاضر رہا کرتے تھے اور ان کے بعض فارسی قصائد ان ہی سے سبقاً پڑھے۔ اس کے بعد وہ خود بھی شعر کہنے لگے اور اپنی کچھ غزلیں مرزا کے سامنے بغرض اصلاح پیش کیں تو انھوں نے کہا "اگرچہ میں کسی کو فکر شعر کی صلاح نہیں دیتا لیکن تمھاری نسبت میرا خیال ہے کہ تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے"۔1857 کے ہنگاموں میں حالی کو دہلی چھوڑ کر پانی پت واپس جانا پڑا اور کئی سال بیروزگاری اور تنگی میں گزرے پھر ان کی ملاقات نواب مصطفیٰ خان شیفتہ،رئیس دہلی و تعلقہ دار جہانگیر آباد (ضلع بلند شہر) سے ہوئی جو ان کو اپنے ساتھ جہانگیر اباد لے گئے اور انھیں اپنا مصاحب اور اپنے بچوں کا اتالیق بنا دیا۔شیفتہ غالب کے دوست ،اردو و فارسی کے شاعر تھے اور مبالغہ کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ وہ سیدھی سادی اور سچی باتوں کو حسن بیان سے دلفریب بنانے کو شاعری کا کمال سمجھتے تھے اور عامیانہ خیال سے متنفر تھے۔حالی کی شاعرانہ ذہن سازی میں شیفتہ کی صحبت کا بڑا دخل تھا۔ حالی غالب کے معتقد ضرور تھے لیکن شاعری میں ان کو اپنا آئڈیل نہیں بنایا ۔شاعری میں وہ خود کومیر کا مقلد بتاتے ہیں ۔1872ء میں شیفتہ کے انتقال کے بعد حالی پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازم ہو گئے جہاں ان کا کام انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی جانے والی کتابوں کی زبان درست کرنا تھا۔ اسی زمانہ میں پنجاب کے محکمۂ تعلیم کے ڈائرکٹر کرنل ہالرائڈ کی ایماء پر محمد حسین نے ایسے مشاعروں کی طرح ڈالی جن میں شعراء کسی ایک موضوع پر اپنی نظمیں سناتے تھے۔ حالی کی چار نظمیں "حب وطن"،برکھا رت"،نشاط امید" اور مناظرۂ رحم و انصاف" ان ہی مشاعروں کے لئے لکھی گئیں۔ لاہور میں ہی انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے اپنی کتاب "مجالس انساء" قصہ کے پیرائے میں لکھی جس پر وائسرائے نارتھ بروک نے ان کو 400 روپے کا انعام دیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ لاہور کی ملازمت چھوڑ کر دہلی کے اینگلو عربک اسکول میں مدرس ہو گئے اور پھر 1879ء میں سر سید کی ترغیب پر مثنوی مدّ و جزر اسلام "لکھی جو مسدس حالی کے نام سے مشہور ہے۔اس کے بعد 1884ء میں حالی نے "حیات سعدی" لکھی جس میں شیخ سعدی کے حالات زندگی اور ان کی شاعری پر تبصرہ ہے۔"حیات سعدی اردو کی با اصول سوانح نگاری میں پہلی اہم کتاب ہے۔
"مقدمۂ شعر و شاعری "حالی کے دیوان کے ساتھ 1893ءمیں شائع ہوا جو اردو تنقید نگاری میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔اس نے تنقیدی روایت کا رُخ بدل دیا اور جدید تنقید کی بنیاد رکھی۔ اس کتاب میں شاعری کے حوالہ سے ظاہر کئے گئے خیالات، مغربی تنقیدی اصولوں کی اشاعت کے باوجود اب بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ان کی "یادگار غالب" 1897میں شائع ہوئی۔ یہ غالب کے حالات زندگی اور ان کی شاعری پر تبصرہ ہے۔غالب کو عوامی مقبولیت دلانے میں اس کتاب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔اس سے پہلے غالب ی شاعری صرف خواص کی پسندیدہ تھی۔ نثر میں حالی کی اک اور تصنیف "حیات جاوید" ہے جو 1901 ء میں شائع ہوئی۔ یہ سر سید کے حالات زندگی اور ان کے کارناموں کی دستاویز ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی تقریباً ایک صدی کی تہذیبی تاریخ بھی ہے۔ اس میں اس زمانے کی معاشرت،تعلیم،مذہب،سیاست اور زبان وغیرہ کے مسائل زیر بحث آگئے ہیں۔
حالی نے عورتوں کی ترقی ا ور ان کے حقوق کے لئے بہت کچھ لکھا۔ان میں "مناجات بیوہ"اور،"چپ کی داد" نے شہرت حاصل کی۔ حالی نے اردو مرثئے کو بھی نیا رخ دیا جو سچے درد کے ترجمان ہیں۔ حالی نے غزلوں، نظموں اور مثنویوں کے علاوہ قطعات، رباعیات اور قصائد بھی لکھے۔
1887ء میں سر سید کی سفارش پر ریاست حیدر اباد نے امداد مصنفین کے محکمہ سے ان کا 75 روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو بعد میں 100 روپے ماہوار ہو گیا۔اس وظیفہ کے بعد قناعت پسند حالی اینگلو عربک کالج کی ملازمت سے مستعفی ہو کر پانی پت چلے گئے اور وہیں اپنا تصنیفی سلسلہ جاری رکھا ۔ 1904ء میں حکومت نے انھیں شمس العلماء کے خطاب سے نوازا جسے انھوں نے اپنے لئے مصیبت گردانا کہ اب سرکاری حکام کے سامنے حاضری دینا پڑے گی۔ شبلی نے انھیں خطاب دئے جانے پر کہا کہ اب صحیح معنوں میں اس خطاب کی عزت افزائی ہوئی۔ حالی نزلہ کے دائمی مریض تھے جس پر قابو پانے کے لئے انھوں نے افیون کا استعمال شروع کیا جس سے فائدہ کی بجائے نقصان ہوا۔ ان کی بصارت بھی دھیرے دھیرے زائل ہوتی گئی۔ دسمبر 1914ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔
اردو ادب میں حالی کی حیثیت کئی اعتبار سے ممتاز و منفرد ہے۔ انھوں نے جس وقت ادب کے کوچے میں قدم رکھا اس وقت اردو شاعری لفظوں کا کھیل بنی ہوئی تھی یا پھر عاشقانہ شاعری میں معاملہ بندی کے مضامین مقبول تھے۔غزل میں آفاقیت اور اجتماعیت کا حوالہ بہت کم تھا اور شاعری اک نجی مشغلہ بنی ہوئی تھی۔ حالی نے ان رجحانات کے مقابلہ میں حقیقی اور سچے جذبات کے بے تکلفانہ اظہار کو ترجیح دی۔ وہ جدید نظم نگاری کے اوّلین معماروں میں سے ایک تھے۔انھوں نے غزل کو حقیقت سے ہم آہنگ کیا اور قومی و اجتماعی شاعری کی بنیاد رکھی۔اسی طرح انھوں نے نثر میں بھی سادگی اور برجستگی داخل کر کے اسے ہر قسم کے علمی ،ادبی اور تحقیقی مضامین ادا کرنے کے قابل بنایا۔ حالی شرافت اور نیک نفسی کا مجسمہ تھے۔ مزاج میں ضبط و اعتدال، رواداری اور بلند نظری ان کی ایسی خوبیاں تھیں جن کی جھللک ان کے کلام میں بھی نظر آتی ہے۔اردو ادب کی جو وسیع و عریض ،خوبصورت اور دلفریب عمارت آج نظر آتی ہے اس کی بنیاد کے پتھر حالی نے ہی بچھائے تھے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets