aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو غزل کے ارتقا میں حسرت کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ان کے خیال اور انداز بیان دونوں میں شخصی اور روایتی عناصر کی آمیزش ہے۔ان کے یہا ں ایک طرف حسن وعشق کا بیان ہے تودوسری طرف عصری مسائل کی عکاسی بھی ہے۔ حسن کی مصوری میں حسرت کی غزلیں نمایاں ہیں۔ شاعری کے علاوہ بھی حسرت کی بہت ساری خدمات ہیں۔ ان کی زندگی اور شاعری کو بہتر سمجھنے کے لئے ان کے دیوان کا مطالعہ کافی معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ حسرت کی اہلیہ نشاط النسا بیگم نے ان کے شاعری کو کچھ اس طرح ترتیب دیا ہے کہ دیوان کے ہر حصے کی غزلوں سے ان کے فن اور شخصیت کے ارتقا کی کہانی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ بلکہ خود بیگم حسرت نے دیوان کے ہر حصہ پر ایک نوٹ لکھا ہوا ہے کہ یہ غزلیں حسرت کے کس دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ دیوان کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ زیر نظر حصہ سوم ہے۔
اگر کسی ایک شخص میں اک بلند پایہ شاعر، ایک عظیم مگر ناکام سیاستداں، ایک صوفی، درویش اور مجاہد، ایک صحافی، نقّاد اور محقّق اور ایک کانگریسی، مسلم لیگی، کمیونسٹ اور جمیعت علما کی بہت سی شخصیتیں ایک ساتھ جمع ہو سکتی ہیں تو اس کا نام سید فضل الحسن حسرت موہانی ہو گا۔ حسرت موہانی اگر اردو غزل کا ایک بڑا نام ہیں تو یہ وہی تھے جنہوں نے ملک کو انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا، انگریزوں کے خلاف گوریلہ جنگ کی وکالت کی، مہاتما گاندھی کو سودیشی تحریک کی راہ سجھائی، سب سے پہلے ہندستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا، ملک کی تقسیم کی مخالفت کی، آئین ساز اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ممبر ہوتے ہوئے، گھر میں سلے بغیر استری کے کپڑے پہنے، ٹرین کے تھرڈ کلاس اور شہر کے اندر یکہ پر سفر کیا، چھوٹے سے مکان میں قیام کرتے ہوئے گھر کا سودا سلف خریدا اور پانی بھرا اور یہ سب تب تھا جبکہ ان کا تعلق ایک جاگیردارانہ گھرانے سے تھا۔ سیاست کو نہ وہ راس آئے نہ سیاست ان کو راس آئی، ان کی موت کے ساتھ ان کی سیاسی جدّوجہد محض تاریخ کا حصہ بن گئی لیکن شاعری ان کو آج بھی پہلے کی طرح زندہ رکھے ہوئے ہے۔
حسرت موہانی لکھنؤ کے قریب انّاو کے قصبہ موہان میں پیدا ہوئے۔ والد اظہر حسین ایک جاگیردار تھے اور فتحپور میں رہتے تھے۔ حسرت کا بچپن ننہال میں گزرا، ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کرنے کے بعد مڈل اسکول کے امتحان میں سارے صوبہ میں اوّل آئے اور وظیفہ کے حقدار بنے پھر انٹرنس کا امتحاں فتحپور سے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا جس کے بعد وہ علی گڑھ چلے گئے جہاں ان کی زندگی یکسر بدل گئی۔ کہتے ہیں کہ اودھ کی تہذیب کے پروردہ حسرت علی گڑھ پہنچے تو اس شان سے کہ ایک ہاتھ میں پاندان تھا، جسم پر نفیس انگرکھا اور پاوں میں پرانی وضع کے جوتے۔ جاتے ہی "خالہ امّاں " کا خطاب مل گیا اور سجاد حیدر یلدرم نے ان پر ایک نظم "مرزا پھویا" لکھی۔ لیکن جلد ہی وہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی بناء پر علی گڑھ کے ادبی حلقہ میں مقبول ہو گئے۔ ساتھ ہی اپنے انقلابی خیالات کی وجہ سے اس وقت کے انگریز دوست کالج حکام کے لئے مسئلہ بھی بن گئے۔ اُس وقت حسرت کے شب و روز یہ تھے کہ دن رات شعر و سخن کی محفلیں گرم رہتیں، یونین ہال میں تقریریں ہوتیں اور سیاسی حالات پر بحثیں کی جاتیں۔ سجاد حیدر یلدرم، مولانا شوکت علی، قاضی تلمذ حسین اور ابو محمد، ان کے ساتھیوں میں سے تھے۔ 1902ء میں کالج کے جلسہ میں حسرت نے اپنی مثنوی "مشاعرہ شعرائے قدیم در عالم خیال" سنائی جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس جلسہ میں فانی بدایونی، میر مہدی مجروح، امیر اللہ تسلیم جیسی شخصیتیں موجود تھیں۔ اسی زمانہ میں حسرت نے کالج میں ایک مشاعرہ کا اہتمام کیا جس میں کچھ شعر ایسے پڑھے گئے جن پر فحش ہونے کا الزام لگایا گیا حالانکہ ویسے شعروں سے اردو شعراء کے دیوان بھرے پڑے ہیں۔ بات اتنی تھی کہ حسرت کی سرگرمیوں کی وجہ سے کالج کا پرنسپل ان سے جلا بیٹھا تھا اور اسے حسرت کے خلاف کارروائی کا بہانہ مل گیا۔ انہیں کالج سے نکال دیا گیا البتہ امتحان میں شرکت کی اجازت دی گئی۔ حسرت نے بی اے پاس کرنے کے بعد، اعلیٰ سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی بجائے خود کو ملک و قوم کی خدمت اور شاعری کے فروغ کے لئے وقف کر دیا۔ انھو ں نے علی گڑھ سے ہی ادبی و سیاسی رسالہ اردوئے معلی جاری کیا۔ اسی دوران میں انہوں نے قدیم اردو شعراء کے دیوان تلاش کر کے انہیں ایڈٹ اور شائع کیا اور انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہو کر آزادی کی جنگ میں میں کُود پڑے۔ سیاسی طور پر وہ کانگرس کے "گرم دَل" سے تعلق رکھتے تھے اور بال گنگا دھر ان کے قائد تھے۔ وہ موتی لال نہرو اور گوکھلے جیسے "نرم دَل" کے لیڈروں کی نکتہ چینی کرتے تھے۔ 1907 میں کانگرس کے سورت اجلاس میں بال گنگا دھر کانگریس سے الگ ہوئے تو وہ بھی ان کے ساتھ الگ ہو گئے۔ وہ انگریزوں کے خلاف گوریلہ جنگ کے حامی تھے۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کا "انقلاب زندہ آ باد " کا نعرہ دینے والے حسرت ہی تھے۔ اردوئے معلی میں آزادی پسندوں کے مضامین برابر چھپتے تھے اور دوسرے ممالک میں بھی انگریزوں کی حکمت عملیوں کا پردہ فاش کیا جاتا تھا۔ 1908ء میں ایسے ہی اک مضمون کے لئے ان پر مقدمہ قائم کیا گیا اور 2 سال قید با مشقت کی سزا ہوئی جس میں ان سے روزانہ ایک من گیہوں پسوایا جاتا تھا۔ اسی قید میں انہوں نے اپنا مشہور شعر کہا تھا، "ہے مشق سخن جاری،چکی کی مشقت بھی*اک طرفہ تماشا ہے شاعر کی طبیعت بھی" اس قید نے حسرت کے سیاسی خیالات میں مزید شدّت پیدا کر دی، 1921ء کے کانگرس کے احمدآباد اجلاس میں انہوں نے مکمل آزادی کا مطالبہ کیا جس کو اس وقت کے کانگریسی لیڈروں نے قبل از وقت قرار دیتے ہوئے منظور نہیں کیا۔ حسرت کو 1914 اور 1922ء میں بھی گرفتار کیا گیا۔ 1925ء سے ان کا جھکاؤ کمیونزم کی طرف ہو گیا۔ 1926 میں انہوں نے کانپورمیں پہلی کمیونسٹ کانفرنس کا استقبالیہ خطبہ پڑھا جس میں آزادی کامل، سوویت ری پبلک کی طرز پر سوراج کے قیام اور سوراج قائم ہونے تک کاشتکاروں اور مزدوروں کی فلاح و بہبود پر زور دیا۔ اس سے پہلے وہ مسلم لیگ کے ایک اجلاس کی بھی صدارت کر چکے تھے اور مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ہی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔ وہ جمیعت علماء کے بانیوں میں سے تھے۔ جب حسرت نے سودیشی تحریک اپنائی تو شبلی نعمانی نے ان سے کہا، ’’تم آدمی ہو یا جِن، پہلے شاعر تھے، پھر پالیٹیشین بن گئے اور اب بنئے بھی ہو گئے!‘‘
حسرت کی شخصیت کا دوسرا اہم پہلو ان کی شاعری ہے۔ حسرت کی شاعری سر تا پا عشق کی شاعری ہے جو نہ تو جرأت کی طرح کبھی تہذیب سے گرتی ہے اور نہ مومن کی طرح ہجر و وصال کے جھولوں میں جھولتی ہے۔ ان کے عشق میں زبردست احتیاط اور رکھ رکھاؤ ہے جو ایک طرف ان کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیتا تو دوسری طرف ان کو کامیابی سے بے نیاز بھی رکھتا ہے۔ یعنی ان کے عشق کا بنیادی مقصد محبوب کو حاصل کرنا نہیں بلکہ اس سے عشق کئے جانا ہے۔ ان کا عشق سراسر مجازی ہے جسے وہ عشق حقیقی کے ساتھ خلط ملط نہیں کرتے۔ وہ اپنے معشوقوں کی نشاندہی بھی کر دیتے ہیں۔ "رعنائی میں حصہ ہے جو قبرص کی پری کا*نظارہ ہے مسحور اسی جلوہ گری کا۔۔۔ لاریب کہ اس حسن ستم گار کی سرخی*موجب ہے مرے زہد کی عصیاں نظری کا۔۔۔ ساتھ ان کے جو ہم آئے تھے بیروت سے حسرت* یہ روگ نتیجہ ہے اسی ہمسفری کا " / "ہم رات کو اٹلی کے حسینوں کی کہانی*سنتے رہے رنگینیٔ ژوپا کی زبانی۔۔۔ آنکھوں کا تبسم تھا مرے شوق کا موجب*چتون کی شرارت تھی مری دشمن جانی۔۔۔ اٹلی میں تو کیا میں تو یہ کہتا ہوں کہ حسرت*دنیا میں نہ ہو گا کوئی اس حسن کا ثانی"۔ بہر حال ان کی حسرتیں ہمیشہ حسرت ہی رہیں۔ وہ خود حسرت موہانی جو تھے! لیکن خاص بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود حسرت کبھی مایوس اور غمگین نہیں ہوتے۔ وہ زندگی کے امکانات پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کو محبت کے ہر چرکے میں سنبھالا دینے والی چیز خود محبت ہے۔ "قوت عشق بھی کیا شے ہے کہ ہو کر مایوس*جب کبھی گرنے لگا ہوں تو سنبھالا ہے مجھے"۔ ان کی شاعری میں ایک طرح کی شگفتگی، دلبستگی اور بےساختگی ہے۔ سارا کلام غنائیت کے کیف و سرور میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام سادہ ہونے کے باوجود بیحد پُر اثر ہے۔ وہ محبت کے نازک و لطیف جذبات اور ان کے اُتار چڑھاؤ کی تصویریں اس طرح کھینچتے ہیں کہ وہ بالکل سچی اور جاندار معلوم ہوتی ہیں۔ حسرت کا مطالعہ بہت وسیع تھا، انہوں نے اساتذہ کا کلام بڑی توجہ سے پڑھا تھا۔ اور ان سے استفادہ کو وہ چھپاتے نہیں۔ "غالب و مصحفی و میر و نسیم و مومن*طبع حسرت نے اٹھایا ہے ہر استاد سے فیض" لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا اپنا کوئی رنگ نہیں بلکہ جس طرح کوئی مرکّب اپنے اجزائے ترکیبی کے خواص کھو کر اپنے انفرادی خواص کے ساتھ وجود میں آتا ہے اسی طرح حسرت کا کلام پڑھتے ہوئے ایسا نہیں محسوس ہوتا کہ وہ کسی کی نقل ہے۔ پھر بھی شاعرانہ بلکہ یوں کہئے کہ اپنے عاشقانہ مزاج کے لحاظ سے اگر وہ کسی شاعر کے قریب نظر آتے ہیں تو وہ مومن ہیں۔ ان کا کہنا تھا، "درد و تاثیر کے لحاظ سے مومن کا کلام غالب سے افضل اور ذوق سے افضل تر ہے۔"
حسرت کا دوسراہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردوئے معلی کے ذریعہ بہت سے گمنام شاعروں کو متعارف کرایا اور شعری ادب کی تنقید کا ذوق عام ہوا۔ انھوں نے عصری شاعری کا رشتہ کلاسیکی ادب سے جوڑا۔ ان کے تین رسالوں "متروکات سخن"، "معائب سخن" اور "محاسن سخن" میں شعر کی خوبیوں اور خامیوں سے بحث کی گئی ہے۔ حسرت ایک پُر گو شاعر تھے۔ انہوں نے 13 دیوان مرتب کئے اور ہر دیوان پر خود دیباچہ لکھا۔ ان کے اشعار کی تعداد تقریباً سات ہزار ہےجن میں سے زائد از نصف قید و بند میں لکھے گئے۔ آزادی کے بعد وہ پارلیمنٹ کے رکن رہے لیکن ملک کی سیاست سے کبھی مطمئن نہیں رہے۔ ان کا انتقال 1951 میں لکھنؤٔ میں ہوا اور وہیں دفن کئے گئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets