aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
نام میرزا جہاں دار شاہ، عرفیت جواں بخت بہادر، ولی عہد حضرت شاہ عالم بادشاہ۔ تقریبا1749 میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم محصور’’ سلاطین‘‘ کے طور پر ہوئی جس میں عربی ،فارسی اور اردو کی تعلیم شامل تھی۔ دلیری اور جواں مردی کا یہ عالم تھا کہ ایک روزشکار گاہ میں ہاتھی بگڑ گیا ۔چاہا کہ سونڈ سے وار کرے ،مگر شہزادے نے مہلت نہ دی اور ایک ہی ضرب میں اس کا کام تمام کردیا۔امرا کی ریشہ دوانیوں سے بد دل ہوکر دہلی چھوڑ کر پہلے لکھنؤ گئے اور بعد میں بنارس چلے گئے۔انگریزوں کے برسراقتدار آنے کے بعد پنشن ہوگئی۔ آصف الدولہ جہاندار شاہ کے مصارف کے کفیل تھے اور تین لاکھ روپیہ سالانہ دینے پر رضامند تھے۔شعرا کے بعد قدردان تھے۔فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔موسیقی سے بھی ذوق رکھتے تھے ۔لکھنؤ سے بنارس آکر محفل آرائی کا زور قائم رہا۔جہاندار رنگ رلیاں مناتے رہے اور اپنی انتظامی استعداد کو فراموش کرتے رہے۔ پریشانیوں اور الجھنوں نے جہاندار کو مضمحل کردیا تھا۔ اور ان کا انتقال بنارس میں ہوگیا۔۔دیوان جہاندار کے علاوہ ’’دلی سے فرار کی داستان‘‘ ان کی تصنیف ہے جس کا ترجمہ انگریزی میں بھی ہوا ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets