aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
میر مہدی مجروح اعلی پایہ کے شاعر اور غالب کے معروف شاگردوں میں سے تھے۔ ان کی شاعری میں لطف بیان اور انداز بیان کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔مطالب ومعانی کے لحاظ سے ان کا ہر شعر بلکہ ہر مصرعہ شاعری کا اعلی و مکمل نمونہ ہے۔بند ش اور زبان وبیان کے اعتبار سےمجروح کا کلام اردو کے آخری کلاسکی دور کا ترجمان ہے۔ زیر نظر دیوان کے مطالعہ سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسے شاعر کا کلام ہے جس پر مذہبی رنگ غالب ہے۔ دیوان میں غزلوں کے علاوہ قصائد، رباعیات و قطعات، ترجیع بند اور تقاریظ موجود ہیں۔ اس دیوان کو ایک بسیط مقدمہ کے ساتھ ریاض احمد نے مرتب کیا ہے۔
میر مہدی مجروح کے نام سےان کے ہمعصر اور ہم رتبہ شاعروں کے مقابلہ میں، ہماری زیادہ واقفیت خطوط غالب کی مرہون منت ہے۔ مجروح غالب کے ان شاگردوں میں تھے جنہیں وہ بے حد عزیز رکھتے تھے اور انھیں اپنا "فرزند" کہتے تھے۔ شاعری میں ہی نہیں ان کی نجی زندگی میں بھی غالب نے مجروح کی ہر طرح مدد اور رہنمائی کی۔ شاعری کو الگ رکھتے ہوئےاگر اردو ادب پر مجروح کا کچھ احسان ہے تو وہ یہ ہے کہ انہوں نے غالب سے بکثرت خطوط لکھوائے۔
مجروح کا پورا نام میر مہدی حسین تھا۔ وہ 1833ء کے آس پاس دہلی کے محلہ اردو بازار میں پیدا ہوئے جو لال قلعہ اور جامع مسجد کے درمیان واقع تھا۔ وہ نجیب الطرفین سید تھے۔ ان کے اجداد ایران سے ہندوستان آ کر دہلی میں بس گئے تھے۔ یہ لوگ شاعر اور اہل علم تھے جس کی بدولت ان کو دربار شاہی تک رسائی حاصل ہو گئی تھی۔ مجروح کے والد میر حسین فگار بھی شاعر تھے اور کچھ تذکرہ نویسوں نے ان کو بھی غالب کا شاگرد بتایا ہے فگار کے دادا اور بعض کے مطابق نانا میر فقیہ اللہ دہلوی شاہ عالم بادشاہ کے درباری شاعر تھے۔ مجروح کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ کیونکہ ان کا سارا خاندان علم کی دولت سے مالامال تھا۔ وہ جوانی میں خوش رو اور خوش خو نوجوان تھے۔ خالص دہلی والوں کا لباس پہنتے تھے۔ اور ہر وقت عطر میں تر بتر رہتے تھے۔ انہوں نے اس وضع کو آخری دم تک نہیں چھوڑا۔ مجروح نے لڑکپن میں ہی شاعری شروع کر دی تھی اور مرزا اسد اللہ خاں غالب، نواب مصطفی خان شیفتہ، شیخ ابراہیم ذوق، حکیم مومن خاں مومن اور مفتی صدرالدین آزردہ جیسی منتخب روزگار شخصیتیوں کی صحبت میں وقت گزارنے لگے تھے۔ یہ ان کی فارغ البالی کا زمانہ تھا۔ ہر شام شعرو سخن کی محفلیں آراستہ ہوتیں جن میں شہر کے سبھی بڑے شعراء جمع ہوکر باہم داد سخن دیتے۔ 1857ء تک یہ گلزار سخن شاداب و سیراب رہا لیکن اس کے بعد جمعیت منتشر ہو گئی۔ 1857ء کی بد امنی نے شہر کے شرفاء کے جان ومال کو غیر محفوظ بنا دیا تھا اور لوگ شہر سے بھاگ کر دوسرے مقامات پر پناہ لینے کے لئے مجبور ہو گئے تھے۔ مجروح بھی اپنے خاص دوست خواجہ الطاف حسین حالی کے پاس پانی پت چلے گئے۔ جنہوں نے وہاں اپنے مکانات میں سے ایک مجروح کو رہنے کے لئے دے دیا۔ مجروح نے جیسے تیسے پانچ برس پانی پت میں گزارے لیکن اس سارے عرصہ میں ان کو دہلی کی یاد ستاتی رہی۔ پانی پت ان کو راس نہیں آیا تھا وہ وہاں پہنچ کر اکثر بیمار رہتے۔ وہیں ان کو آنکھوں کا عارضہ لاحق ہوا جس نے آخری عمر تک پہنچتے پہنچتے ان کی بینائی پوری طرح ختم کر دی تھی۔
دہلی میں کچھ امن و امان بحال ہوا تو 1865ء میں مجروح دہلی واپس آ گئے۔ لیکن اب دہلی وہ دہلی نہیں تھی جسے وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ شہر کا نقشہ ہی کچھ اور تھا۔ ان کے سارے احباب منتشر ہو گئے تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا تھا، اچھے وقتوں کی پس انداز پونجی کب تک ساتھ دیتی۔ غالب نے انھیں الور جانے کا مشورہ دیا جہاں وہ اپنی سفارش سے مجروح کے بھائی کو ملازمت دلا چکے تھے۔ والی الور مہاراجہ شیو دھیان سنگھ شاعروں کے بڑے قدردان تھے۔ شاعروں پر خاص اور مسلمانوں پر عام نوازشیں اتنی بڑھی ہوئی تھیں کہ ان کی رعایا ان سے ناراض ہونے لگی تھی۔ بہرحال مہاراجہ نے مجروح کو پہلے نائب تحصیلدار اور پھر تحصیلدار بنا دیا۔ مجروح نے تین چار سال وہاں فراغت سے گزارے۔ لیکن 1870ء میں مہاراجہ کو معزول کر دیا گیا اور مجروح دہلی واپس آ گئے۔ یہاں مسئلہ پھر روزگار کا تھا۔ اس بار انہوں نے جے پور کا رخ کیا۔ راجہ سوائی رام سنگھ شاعروں کی عزت کرتا تھا۔ اس نے مجروح کو شہر کا نائب کوتوال بنا دیا۔ مجروح نے کئی سال جےپور میں فراغت سے گزارے۔ 1880ء میں راجہ کے انتقال کے بعد مجروح کو ایک طویل بیکاری کا سامنا کرنے کے لئے دہلی واپس آنا پڑا۔ وہ پسماندہ پونجی پر گزربسر کرتے رہے آخر 1896ء میں جب نواب حامد علی خاں ریاست رامپور کے فرمانروا بنے تو انہوں نے از راہ قدردانی اور علم پروری چالیس روپے ماہوار ان کا وظیفہ مقرر کر دیا جو ان کو گھر بیٹھے ملتا رہا۔ آخری عمر میں انہوں نے ایک نوکر کو ساتھ لے کر کربلا اور نجف اشرف کی زیارت کی۔ واپسی پر ان کی بصارت بالکل جواب دے گئی تھی اور وہ چلنے پھرنے کے لئے دوسروں کے محتاج ہو گئے تھے۔ وفات کے وقت وہ بے حد نحیف و ضعیف ہو چکے تھے۔ 15 اپریل 1903 کو ان کا انتقال ہو گیا۔ دہلی میں درگاہ قدیم شریف کے صدردروازے کے باہر فصیل سے متصل جنوب میں ان کی قبر ہے۔
مجروح غالب کے شاگرد تھے لیکن انہوں نے غزل میں استاد کی پیروی نہیں کی البتہ نثر میں ان کے قدم بہ قدم چلنے کی کوشش ضرور کی۔ غالب ان کی نثر کے مداح تھے اور ایک خط میں یہاں تک لکھ دیا کہ مجھے تمہاری نثر پر رشک آتا ہے۔ اس میں محبت یا حوصلہ افزائی کو کتنا دخل تھا یہ تو غالب ہی جانتے ہوں گے۔ مجروح کی تصانیف اکثر شائع ہی نہیں ہوئیں اور جو شائع ہوئیں وہ بھی اب ناپید ہیں۔ بس اک دیوان ہے جو ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گیا تھا۔ شاعری میں زبان کی صفائی کے لحاظ سے وہ داغ سے زیادہ قریب ہیں۔ 1857ء کے بعد غزل کی طرف ان کی توجہ کم ہو گئی تھی اور زیادہ تر مذہبی شاعری کرتے تھے۔ مجروح اور حالی ایک دوسرے کے دوست بھی تھے اور مداح بھی۔ حالی نے کہا، داغ و مجروح کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں* نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانہ ہرگز اور اسی زمین میں مجروح نے کہا، قصر حالی کے حوالی میں ذرا تم مجروح/ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہ بنانا ہرگز۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets