aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پیدائش1111ھ و1113ھ مطابق1699ء و1701کے درمیان مرزا جان جاں نام معروف بہ مرزا جان جاناں ۔ ان کے والد دربار عالم گیر میں منصب دار تھے اور یہ نام عالم گیر ہی کا تجویز کیا ہوا ہے اکبرآباد کے رہنے والے تھے پھر دہلی میں آرہے ۔جوانی میں خانقاہوں میں زندگی بسر کی اور اور خدمت سے خود مخدوم ہوگئے وار سیکڑوں لوگ خصوصا روہیلے ان کے مرید ہوگئے ۔عاشق منش صوفی تھے ۔ تحصیل عالم عالمانہ نہ تھی لیکن علم ، حدیث، فقہ، سیر و تواریخ میں مہارت رکھتے تھے۔ تقریر بہت اچھی کرتے تھے ۔ مزاج میں نفاست اور لطافت بہت تھی جس کے متعلق کئی روایات مشہور ہیں ۔ اسی لطافت اور نزاکت نے انہیں زمبان اور شعر کی تراش و حسن پر مجبور کیا اور باوجودیکہ اپنے سن و سال کے لحاظ سے یہ قدما کے طبقۂ دوم میں شمار کئے جاسکتے ہیں لیکن مذاق شعری اور اصلاح زبان کے سلسلے میں طبقۂ سوم ہی میں شامل کیا گیا آزاد ان کے کلام کے متعلق لکھتے ہیں۔ ہیں اور یہ مقام تعجب نہیں کہ وہ قدرتی عاشق مزاج تھے اوروں کے کلام میں یہ مضامین خیالی ہیں اور ان کے اصل حاصل‘‘ لیکن آزاد نے ان کے عادات و اطوار کے بیان میں کئی غلط بیانیاں کی ہیں جن کی طرف مصنف گل رعنا اور عبدالرزاق قریشی نے اشارہ کیا ہے ۔ ان کا دیوان فارسی اپنے منتخب کئے ہوئے ایک ہزار اشعار پر مشتمل ہے یہ انتخاب 1170ھ مطابق1756ء میں کیا تھا اردو میں بھی منتخب اشعار ہی ہیں ۔ بہ قول بعض تذکرہ نویسوں کے اپنے محبوب مرید تاباںؔ کے کہنے سے اردو میں غزل گوئی ترک رکدی تھی بعض کہتے ہیں کہ ان کے شاگرد یقینؔ کے اشعار ان سے بہتر ہونے لگے تھے اس لیے تاباںؔ نے ایسا مشورہ دیا( دیوان یقین مرتبہ فرحت اللہ ) ممکن ہے کہ اپنی وظائف سے فرصت نہ ملنے کے باعث ایسا کیا ہو پھر بھی اشعار کی تعداد اچھی خاصی ہے اور وہی زبان استعمال کی ہے جو میرؔ و سوداؔ کی ہے ۔ ایک مختصر انتخاب فارسی گو شعرا کا بھی خریطہ جواہر کے نام سے کیا تھا بیاسی یا چوراسی برس کے تھے کہ7محرم 1195ھ مطابق1780ء کو ایک شخص کے ہاتھوں طپنچہ کا زخم پہونچا۔ 10محروم کو انتقال کیا اور چتلی قبر کے پاس گھر ہی میں مدفون ہوئے جو اب خانقاہ کہلاتی ہے ۔ تاریخ وفات قمرالدین منت نے الفاظ حدیث سے نکالی ۔ ان کے شاگردوں میں یہ مشہور ہیں ۔ انعام اللہ خں ا یقینؔ ، میر محمد باقرؔ حزیں، احسان اللہ بیانؔ ، بساون لال بیدار، ہیبت قلی خاں حسرتؔ ، محمد فقیہہ درمن مصحفی لکھتے ہیں۔(الخ) اس اولیت کا اعتراف قدرتؔ ،میر حسن وغیرہ دوسرے تذکرہ نویسوں نے بھی کیا ہے ۔ مظہرؔ کا کلام زیادہ نہیں ملتا۔ ممکن ہے کہ ابتدائی کلام میں فارسیت زیادہ ہو جس کے متعلق سوداؔ نے اعتراض کیا ہے بعد کے کلام میں تو فارسی آمیزش بہت مناسب اور میرؔ امروز کی ایسی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets