aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
غلام ہمدانی مصحفی اردو زبان کے کلاسیکی اور عہد قدیم کے شاعر ہیں۔ میر تقی میر کے بعد بحیثیت مجموعی اردو شاعری کے دورِ قدیم میں مصحفی، مرتبہ میں سب سے بلند ہے۔ ان کی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا شعری مزاج دہلی میں صورت پزیر ہوا لیکن لکھنوکے ماحول، دربارداری کے تقاضوں اور سب سے بڑھ کرانشا سے مقابلوں نے انہیں لکھنوی طرز اپنانے پر مجبور کیا۔ ان کا منتخب کلام کسی بھی بڑے شاعر سے کم نہیں۔ اگر جذبات کی ترجمانی میں میر تک پہنچ جاتے ہیں تو جرات اور انشا کے مخصوص میدان میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ یوں دہلویت اور لکھنویت کے امتزاج نے شاعری میں بیک وقت شیرینی اور نمکینی پیدا کر دی ہے۔ ایک طرف جنسیت کا صحت مندانہ شعور ہے تو دوسری طرف تصوف اور اخلاقی مضامین بھی مل جاتے ہیں۔ آٹھ اردو، ایک فارسی دیوان آپ کی یادگار ہیں۔ غلام ہمدانی مصحفی نے جتنے اشعار لکھے ہیں شاید ہی کسی دوسرے شاعر نے لکھے ہوں۔ زیر نظر ان کا آٹھواں دیوان ہے۔ جو ایک عکسی دیوان ہے۔ یہ دیوان خدا بخش پبلک لائبریری سے شائع ہوا ہے۔ دیوان کے شروع مقدمہ میں مصحفی کے زیر دیوان اور دیگر دیوانوں کے نسخوں کی ڈٹیل درج ہے۔ اور دیوان کے اخیر میں عابد رضا بیدار کا طویل مضمون ہے۔ جس سے مصحفی کی شاعری اور عہد پر واضح روشنی پڑتی ہے۔ اس دیوان میں ایک دو رباعی اور سلام کے علاوہ باقی تمام غزلیں ہیں۔
یہ ہیں غلام ہمدانی مصحفی جن کے شاعرانہ تعارف کے لئے یہ اشعار کافی ہیں۔ "شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی*میں جب آنکھ کھولی بڑی رات نکلی" / "آستیں اس نے جو کہنی تک اٹھائی وقت صبح*آرہی سارے بدن کی بے حجابی ہاتھ میں"/ "شب اک جھلک دکھا کر وہ مہ چلا گیا تھا*اب تک وہی سماں ہے غرفہ کی جالیوں پر" اور " مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم*تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا"۔
غلام ہمدانی نام، مصحفی تخلص تھا۔ اکثر تذکرہ نویسوں نے ان کی جائے پیدائش امروہہ لکھی ہے لیکن مہذب لکھنوی میر حسن کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ وہ دہلی کے قریب اکبر پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن بہرحال امروہہ میں گزرا۔ مصحفی کے آباو اجداد خوشحال تھے اور حکومت کے اعلیٰ منصبوں پر فائز تھے لیکن زوال سلطنت کے ساتھ ان کی خوشحالی بھی رخصت ہو گئی اور فلاکت نے آ گھیرا۔ مصحفی کی ساری زندگی معاشی تنگی میں گزری اور روزگار کی فکر ان کو کئی جگہ بھٹکاتی رہی۔ وہ دہلی آئے جہاں انھوں نے تلاش معاش کے ساتھ ساتھ اہل علم کی صحبت سے فائدہ اٹھایا۔ تلاش معاش میں وہ آنولہ گئے پھر کچھ عرصہ ٹانڈے اور ایک سال لکھنؤ میں رہے۔ وہیں ان کی ملاقات سودا ؔسے ہوئی جو فرخ آباد سے لکھنؤ منتقل ہو چکے تھے۔ سودا ؔسے وہ بہت متاثر ہوئے۔ اس کے بعد وہ دہلی واپس آ گئے۔ مصحفی میں علمی قابلیت زیادہ نہیں تھی لیکن طبیعت موزوں پائی تھی۔ اور شاعری کے ذریعہ اپنا کوئی مقام بنانا چاہتے تھے۔ وہ باقاعدگی سے مشاعروں میں شرکت کرتے اور اپنے گھر پر بھی مشاعرے منعقد کرتے۔ دہلی میں انھوں نے دو دیوان مرتب کر لئے تھے جن میں سے اک چوری ہو گیا۔
"اے مصحفی شاعر نہیں پورب میں ہوا میں*دلی میں بھی چوری مرا دیوان گیا ہے"
بارہ سال دہلی میں رہ کر جب وہ دوبارہ لکھنؤ پہنچے تو شہر کا نقشہ ہی کچھ اور تھا
آصف الدولہ کا دور دورہ تھا جن کی سخاوت کے ڈنکے بج رہے تھے۔ ہر فن کے با کمال لکھنؤ میں جمع تھے۔ سوداؔ مر چکے تھے، میر تقی میرؔ لکھنؤ آ چکے تھے۔ میر حسن مقیم لکھنؤ تھے میرؔ سوز ؔاور جرأتؔ کے سکے جمے ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے ہوتے مصحفیؔ کو دربار سے کوئی فیض نہیں پہنچا وہ دہلی کے شہزادے سلیمان شکوہ کی سرکار سے وابستہ ہو گئے۔ سلیمان شکوہ نے لکھنؤ میں ہی سکونت اختیار کر لی تھی۔ شاعری میں انہوں نے مصحفیؔ کو استاد بنا لیا اور 25 روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ لیکن اسی زمانہ میں سید انشاء لکھنؤ آ گئے اور سلیمان شکوہ کو شیشہ میں اتار لیا۔ اور وہ انشاء سے ہی اصلاح لینے لگے۔
انشاءؔ لکھنؤ میں مصحفیؔ کے مد مقابل اور حریف تھے۔ ان کی نوک جھونک مشاعروں سے نکل کر سڑکوں تک آ گئی تھی مصحفیؔ نے لکھنؤ میں شاگردوں کی بڑی تعداد جمع کر لی تھی۔ دوسری طرف انشاءؔ کی طبیعت برجستگی، حاضر جوابی، شوخی اور ظرافت کا مجسمہ تھی۔ مصحفیؔ ان کی چٹکیوں کا، جو مخالف کو رلا دیں، مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ سالہا سال دونوں میں نوک جھونک جاری رہی اور جب بات زیادہ بڑھی تو سلیمان شکوہ کھل کر انشاءؔ کے طرفدار بن گئے۔ جب مصحفیؔ کے شاگردوں نے اک سوانگ (تضحیکی جلوس) انشاءؔ کے خلاف نکالنے کا منصوبہ بنایا تو انھوں نے کوتوال سے کہہ کر اسے رکوا دیا اور ناراض ہو کر مصحفیؔ کا وظیفہ بھی گھٹا کر پانچ روپے ماہانہ کر دیا۔ یہ مصحفیؔ کے لئے بڑی ذلت کی بات تھی جس کا شکوہ انہوں نے اپنے ان اشعار میں کیا ہے، " اے وائے کہ پچیس سے اب پانچ ہوئے ہیں*ہم بھی تھے کنھوں وقتوں میں پچیس کے لائق، استاد کا کرتے ہیں امیر اب کے مقرر*ہوتا ہے جو در ماہہ کہ سائیس کے لائق"۔ یہاں تک کہ دل برداشتہ ہو کر مصحفیؔ نے لکھنؤ چھوڑ دینے کا ارادہ کیا اور کہا، "جاتا ہوں ترے در سے کہ توقیر نہیں یاں*کچھ اس کے سو اب کوئی تدبیر نہیں یاں۔ اے مصحفی بے لطف ہے اس شہر میں رہنا *سچ ہے کہ کچھ انسان کی توقیر نہیں یاں" لیکن لکھنؤ سے نکلنا تقدیر میں نہیں تھا وہیں انتقال کیا۔ مصحفیؔ نے اپنے پیچھے آٹھ دیوان اردو کے، ایک دیوان فارسی کا، ایک تذکرہ فارسی شاعروں کا اور دو تذکرے اردو شاعروں کے چھوڑے۔ مصحفیؔ کا بہت سا کلام ہم تک نہیں پہنچا کیونکہ ایک وقت ان پر ایسا بھی آیا کہ وہ مالی تنگی سے پریشان ہو کر شعر فروخت کرنے لگے تھے۔ ہر مشاعرے کے لئے بہت سی غزلیں کہتے اور لوگ آٹھ آنے ایک روپیہ یا اس سے زیادہ دے کر اچھے اچھے شعر چھانٹ لے جاتے، جو بچتا خود اپنے لئے رکھ لیتے۔ محمد حسین آزاد کے مطابق جب ایک مشاعرہ میں بالکل داد نہ ملی تو انہوں نے تنگ آ کر غزل زمین پر دے ماری اور کہا کہ "واے فلاکت سیاہ جسکی بدولت کلام کی یہ نوبت پہنچی کہ اب کوئی سنتا نہیں" شہر میں اس بات کا چرچا ہوا تو کھلا کہ ان کی غزلیں بکتی ہیں۔ شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ان کو استادوں کا استاد کہا جائے تو غلط نہیں۔ آتشؔ، اسیرؔ، میرؔ خلیقؔ وغیرہ سب ان ہی کے شاگرد تھے۔
مصحفی ؔمیرؔ اور سوداؔ کے بعد خود کو سب سے بڑا شاعر سمجھتے تھے اور اپنی استادی کا سکہ جمانا ان کی عادت تھی۔ خواجہ حیدر علی آتش ان کے شاگرد تھے۔ ایک دن آتش نے اک مشاعرہ میں غزل پڑھی جس کی طرح "دہن بگڑا"، کفن بگڑا" تھی۔ اور استاد کے سامنے جب یہ شعر پڑھا "لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب*زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا"، تو یہ بھی کہہ بیٹھےکہ ایسا شعر کوئی دوسرا نکالے تو کلیجہ منہ کو آ جائے۔ مصحفیؔ نے ہنس کر کہا، "میاں سچ کہتے ہو" اور اس کے بعد اک نو مشق شاگرد کی غزل میں یہ شعر بڑھا دیا "نہ ہو محسوس جو شے کس طرح نقشے میں ٹھیک اترے*شبیہ یار کھنچوائی، کمر بگڑی دہن بگڑا"جب لڑکے نے مشاعرہ میں شعر پڑھا تو آتشؔ نے مصحفیؔ کے قریب آ کر غزل پھینک دی اور کہا، "آپ کلیجہ پر چھریاں مارتے ہیں! اس لڑکے کی کیا حیثیت کہ ایسا شعر کہے" اس واقعہ سے مصحفیؔ کی قادرالکلامی ظاہر ہوتی ہے۔
مصحفیؔ کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ان کا اپنا کوئی مخصوص رنگ نہیں۔ کبھی وہ میرؔ کی طرح، کبھی سوداؔ کی طرح اور کبھی جرأتؔ کی طرح شعر کہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اپنے شعروں میں وہ ان سب سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اپنا رنگ تلاش کرنے کے لئے جس فراغت اور یکسوئی کی ضرورت ہے وہ ان کو کبھی نصیب ہی نہیں ہوئی۔ بسیار گوئی نے ان کے قیمتی نگینوں کو ڈھک لیا پھر بھی جن لوگوں نے ان کے کلام کو توجہ سے پڑھا ہے وہ ان سے متاثر ہوے بغیر نہیں رہے۔
حسرت موہانی نے کہا، "میر تقی کے رنگ میں مصحفی میر حسن کے ہم پلّہ ہیں، سودا ؔکے انداز میں انشاء کے ہم پلّہ اور جعفر علی حسرت کی طرز میں جرأت کے ہمنوا ہیں لیکن بہ حیثیت مجموعی ان سب ہمعصروں سے بہ اعتبار کمال سخندانی و مشّاقی برتر ہیں۔ میرؔ و میرزاؔ کے بعد کوئی استاد ان کے مقابلہ میں نہیں جچتا۔"
گل رعنا کے مولف حکیم عبدالحئی لکھنوی کے مطابق "ان کی ہمہ گیر شخصیت نے کسی خاص رنگ پر قناعت نہیں کی۔ ان کے کلام میں کہیں میرؔ کا درد ہے، کہیں سوداؔ کا انداز، کہیں سوز ؔکی سادگی اور جہاں کہیں ان کی کہنہ مشقی اور استادی اپنے پیشرووں کی خوبیوں کو یکجا کر دیتی ہے وہاں وہ اردو شاعری کا بہترین نمونہ قرار دیے جا سکتے ہیں۔"
نثار احمد فاروقی بہرحال مصحفیؔ کے بارے میں اس عام خیال سے کہ ان کا اپنا کوئی رنگ، کوئی انفرادی اسلوب نہیں، اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں، "اگر ہم اس مرکزی اور مستقل خصوصیت کو بیان کرنا چاہیں جو میرؔ و سوداؔ کے مختلف اندازوں کو اڑاتے ہوئے بھی، مصحفیؔ کے وجدان و کلام میں جاری وساری ہے، تو اسے ہم اک رچا ہوا اعتدال کہہ سکتے ہیں، اک تحت غنائی کیفیت! اگر میر کے یہاں آفتاب نصف النہار کی پگھلا دینے والی آنچ ہے تو سوداؔ کے یہاں اس کی عالمگیر روشنی ہے۔ لیکن آفتاب ڈھل جانے کے بعد سہ پہر کو گرمی اور روشنی کے اک نئے امتزاج سے جو معتدل کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ مصحفیؔ کے کلام کی خصوصیت ہے۔ مصحفیؔ کے یہاں شبنم کی نرمی اور شعلۂ گل کی گرمی کا ایسا امتزاج ہے جو اس کی خاص اپنی چیز ہے۔ اس کے نغموں کی شبنم سے دھلی ہوئی پنکھڑیاں ان گلہائے رنگارنگ کا نظارہ کراتی ہیں جن کی رگیں دُکھی ہوئی ہیں اور جن کی چٹیل مسکراہٹ سے بھینی بھینی بوئے درد آتی ہے۔"
مجموعی طور پر مصحفیؔ ایسے شاعر ہیں جن کو زندگی نے نہ کھل کر ہنسنے کا موقع دیا نہ کھل کر رونے کا، پھر بھی وہ اپنے پیچھے شاعری کا وہ سرمایہ چھوڑ گئے، جو ان کی ابدی زندگی کا ضامن ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets