aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مشہور صوفی اور باکمال شاعر حضرت شاہ نیاز بریلوی ؒ اپنے عہدکے ایک نابغہ روزگار ہستی گذرے ہیں۔موصوف نے فارسی اور اردو زبان میں شاعری کی ہے۔اس لیے فارسی اور اردو تذکروں میں ان کا ذکر موجود ہے۔ دیوان نیاز کے کئی نسخے منظر عام پر آچکے ہیں۔ پیش نظران کا دیوان ہے ،جو صحت زبان اور معیار کے اعتبار سے ،دیگر نسخوں سےزیادہ اہم ہے۔ جس میں ابتد امیں نیاز بریلوی کے مختصر حالات زندگی بھی شامل کیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ شاعر کے علم تصوف ،فارسی شاعری،نیاز کی تصانیف کا تنقیدی تجزیہ ،اور نیاز بحیثیت شاعر کے عنوان سے کلام نیاز کا فنی جائزہ بھی لیا گیا ہے۔اس کے بعددیوان شاہ نیاز بریلوی اپنی صوری اور معنوی حسن کے ساتھ شامل کتاب ہے۔جومناجات ،غزلیات اور متفرقات پر مشتمل ہے۔ اس دیوان کو ڈاکٹر انوار الحسن نے مرتب کیا ہے۔ جس میں فارسی کے علاوہ اردو کلام بھی شامل ہے۔
شاہ نیاز احمد بریلوی ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے قصبہ سرہند (پٹیالہ) میں پیدا ہوئے تعلیم کی غرض سے دہلی گئے اور وہاں پر فخرالدین دہلوی سے ظاہری اور باطنی کسب علوم حاصل کیا سترہ سال کی عمر میں ہی تفسیر، حدیث، اصول اور معقولات و منقولات میں علوم حاصل کیا اور فخرالدین دہلوی صاحب نے انہیں کسب باطن کے لیے بیعت کر لیا۔ جلد ہی اپنے مرشد کے خلیفہ ہوئے اور رشد و ہدایت حاصل کرنے لگے۔ شاہ نیاز احمد بریلوی فخرالدین دہلوی کے خلیفہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اپنے پیر مرشد کی صلاح پر ہی انہوں نے بریلی میں سکونت اختیار کی۔ بریلی ان کی مرجع خواص و عام تھی۔ ہندوستان میں تو معروف تھے ہی بیرون ممالک مانند افغانستان، سمرقند، شیراز، بدخشاں اور عرب ممالک میں بھی ان کے عقیدت مند مرید اور خلیفہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ ۷۷ سال کی عمر میں بریلی میں ہی ان کا وصال ہوا۔ ’’تاریخ مشایخ چیشت‘‘ میں پروفیسر خلیق احمد نظامی نے ان کے اردو، فارسی اور عربی کے کل ۹ نصانیف کا ذکر کیا ہے جس میں ایک رسالہ بھی شامل ہے۔ اہم کتاب : دیوان نیازؔ