aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دیوان شہیدی کا یہ نسخہ مطبع نول کشور لکھنو میں 1913میں دوسری بار شائع ہوا۔ جس کی طباعت خوبصورت اور معیاری ہے اس کے علاوہ ٹائٹل کا صٖحہ رنگین ہے ۔کرام علی خان شہیدی کے دیوان کا بیشتر حصہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ 98صفحات کے دیوان میں 78 صفحات پر غزلیات پھیلی ہوئی ہیں۔ دیوانِ شہیدی میں قطعات بھی شامل ہیں جن کی تعداد پانچ ہے جبکہ کل اشعار 18ہیں۔ قطعات کی طرح رباعیات پر شہیدی نے خاص توجہ نہیں دی دیوان میں شامل رباعیات کی تعداد صرف چھ ہے۔ 1750ء سے لے کر 1850تک کے سو سالہ عہد کو بلاشبہ اُردو غزل کا زرّیں عہد کہا جاسکتا ہے۔ اِن سو برسوں میں اُردو غزل کی روایت کومضبوط اور مربوط بنانے والوں میں جہاں درد، سودا، میر، مصحفی، انشاء، آتش، ناسخ، ذوق، غالب اور مومن شامل ہیں وہاں ایسے شاعر بھی ہیں آج جن کا حوالہ تذکروں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اِن شاعروں کی گم نامی کا سبب کسی بلند آواز کے ساتھ آواز ملانے کی کوشش یا محض نقشِ قدم تلاش کرتے رہنے کی آرزو تھی مگر ستم یہ ہے کہ اِن میں سے چند شعرا ایسے بھی ہیں جن کی گم نامی کی اصل وجہ اُن کے کلام کی عدم دستیابی ہے۔ اُن میں ایک اہم نام کرامت علی خان شہیدی کا بھی ہے۔ شاعری میں کرامت علی شہیدی، مصحفی اور شاہ نصیر کے شاگرد تھے۔ کچھ عرصہ نواب مصطفی خان شیفتہ کی صحبت میں بھی رئے۔کرامت علی کی شاعری میں سوز، اخلاص اور والہانہ پن کے جذبات و احساسات نے ایک کیف آور لے پیدا کر دی ہے۔ شہیدی کی انہی خوبیوں کی بدولت ان کا نام اہم شاعروں کے ساتھ آتا ہے۔ زبان و بیاں کی صفات کے لحاظ سے ان کی شاعری لکنھؤی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free