aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شیفتہ شعر گوئی اور سخن فہمی کا بڑا اعلی مذاق رکھتے تھے۔ گرمی اور لذت کے علاوہ جو ان کے کلام میں خدا داد ہے اس میں وہ شکوہ الفاظ اور چست ترکیب بھی پائی جاتی ہے جو کسی وقت سودا اور نصیر کا حصہ تھی۔ کلام میں بندش الفاظ اور ترکیب روش وار رعایت اسی طرح کی ہے جو غالب اور خاص کر مومن میں پائی جاتی ہے۔ زیر نظر کتاب شیفتہ کا اردو دیوان ہے۔ جس میں صرف ان کا اردو کلام شامل ہے۔ اس دیوان کے شروع میں صلاح الدین احمد کا تقریبا چالیس صفحات پر مشتمل طویل مقدمہ ہے جس میں انھوں نے شیفتہ کی شاعری، اس زمانے کا ماحول اور ان کے حالات پر عالمانہ گفتگو کی ہے۔ دیوان کے بالکل آخر میں شیفتہ کا لکھا ہوا مرثیہ دہلی بھی شامل ہے۔
شیفتہؔ محمد مصطفی خاں شیفتہؔ شعر گوئی اور سخن فہمی کا بڑا اعلی مذاق رکھتے تھے ۔ گرمی اور لذت کے علاوہ جو ان کے کلام میں خدا دادہے اس میں وہ شکوہ الفاظ اور چشستی ترکیب بھی پائی جاتی ہے جو کسی وقت سوداؔ اور نصیرؔ کا حصہ تھی کلام میں بندش الاظ اور ترکیب روش وار رعایت اسی طرح کی ہے جو غالب اور خاص کر مومنؔ میں پائی جاتی ہے ۔ متانت تہذیب اور سنجیدگی ان کے ہاں کوٹ کوٹ کر بھری ہے کسی موع پر تہذیب کے پہلو کو نظر انداز نہیں کرتے خود کہتے ہیں ۔ یہ بات تو غلط ہے کہ دیوان شیفتہؔ ہے نسخۂ معارف و مجموعۂ کمال لیکن مبالغہ تو ہے البتہ اس میں کم ہاں ذکر خدوخال اگر ہے تو خال ہے ان کی سخن فہمی کا ثبوت ان کی مشہور تذکرۂ گلشن بے خار(1250ھ مطابق1834ء) ہے جس میں ہر شاعر کے کلام کے متعلق انہوں نے بڑی جچی تلی رائیں لکھی ہیں خود خود ان کے معاصران کے مذاق سخن کے معترف و مداح تھے ۔ حالیؔ نے بہت کچھ شیفتہؔ ہی کے فیض صحبت سے حاصل کیا ہے تصوف کے مضامین ، پند و حکمت ، مومنؔ کی سی نزاکت خیال اور ہلکی شوخی و ظرافت ان کے یہاں خاص چیز ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets