aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
میر عبدالحی تاباںؔ دہلی کے رہنے والے اور دور محمد شاہی کے شعراء میں سے تھے جتنے تذکرے شیفتۂ تک لکھے گئے ان سب میں ان کے حسن و جمال کی تعریف بے انہائی کی گئی ہے ۔ شراب کثرت سے پیتے تھے ۔ اسی کے باعث انتقال کیا ۔ ان کی شاگردی کے متعلق تذکروں میں اختلاف ہے لیکن مصحفیؔ کاقول سب سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ حاتمؔ نے اسے تلامذہ میں ان کا نام بھی شریک کیا ہے ۔ مگر حشمت کی شاگردی کا ایک قطعی ثبوت تاباںؔ کے دیوان میں موجود ہے ۔ تاباںؔ نے ایک مثنوی اپنے استاد کی مدح میں لکھی ہے جس میں وہ صاف صاف حشمتؔ کی شاگردی کا اعتراف کرتے ہیں ۔ تاباںؔ کا کلام صاف سادہ اور شیریں ہے نہ تخیئل کی بلند پردازی ہے نہ خیالات کی گہری نہ جذبات کی بے تابی عشق محبت کی تمام باتیں ہیں لیکن بہ قول مولوی عبدالحق: زبان اور بول چال کا لطف ضرور پایا جاتا ہے اگرچہ تاباںؔ دور محمد شاہی کے شاعر ہی لیکن قدیم الفاظ اور محاورے ان کے کلام میں نسبتاً کم ہیں میرؔ صاحب نے ان کے کلام کے متعلق بہت ٹھیک رائے دی ہے ۔ دیوان میں غزلوں کے علاوہ کچھ رباعیات ایک مثلث مخمس ، مسدس ایک ترکیب ہند، ایک مستزاد ، ایک قصیدہ مدح بادشاہ میں ایک مثنوی اپنے استاد کی مدح میں چند تضمین حافظ اور مظہر جان جاناں ( جن کے یہ مرید تھے) وغیرہ کی غزلوں پر اور چند تاریخی قطعات ہیں ۔ دیوان انجمن ترقی اردو کی طرف سے چھپ گیا ہے وفات1163ھ و1164ھ مطابق1749ء و1750کے درمیان جوانی ہی میں ہوئی ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets