Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : نظم طبا طبائی

اشاعت : 001

ناشر : مکتبہ ابراہیمیہ، حیدرآباد

سن اشاعت : 1933

زبان : Urdu

موضوعات : شاعری

ذیلی زمرہ جات : دیوان

صفحات : 358

معاون : انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی

دیوان طباطبائی
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

زیر نظر کتاب "دیوان طباطبائی" یعنی "صوت غزل" نظم حیدر طباطبائی کی اردو اور فارسی کی 235 غزلوں اور تین ہزار پانچ سو باون اشعار پر مشتمل ہے۔ دیوان میں شامل غزلیں حروف تہجی کے مطابق ردیف وار مرتب کی گئیں ہیں ،حاشیہ پر ہر غزل کے ساتھ غزل کا نمبر اور تعداد اشعار بھی درج ہے۔ دیواں میں شامل اکثر غزلوں میں لکھنؤ کا رنگ غالب ہے۔ اس کے علاوہ فارسی طرحوں پر کہی گئیں اردو غزلیں بھی اس دیوان مین شامل ہیں۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ "میری اردو بھی فارسی سے کم نہیں ہے، میں نے فارسی کی طرحوں میں جو غزلیں کہی تھیں وہ بھی اس مجموعہ میں شامل کردیں، ان غزلوں میں جا بجا معشوقانہ اداؤں کی تصویریں کھینچی گئی ہیں۔" خیال رہے کہ نظم حیدرطباطبائی اردو زبان کے نامور شاعر، اردو و فارسی کے جید عالم، تاجدار اودھ نواب واجد علی شاہ کے اتالیق، کلامِ غالب کے شارح اور نظام کالج ریاست حیدرآباد میں پروفیسر تھے۔ شرح دیوان غالب ان کا بڑا کارنامہ مانا جاتا ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

سید حیدر علی نام، نظمؔ تخلص، 1853ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ بہت محنت اور توجہ سے تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی ہی میں علمیت کا ایسا چرچا ہوا کہ شہزادگان اودھ کو تعلیم دینے کی خدمت سپرد ہوئی۔ شاہ اودھ معزول کر کے کلکتہ بھیجے گئے تو یہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ چنانچہ کلکتہ کے مٹیا برج میں قیام رہا۔ وہاں شہزادوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک عالم سے خود بھی علم حاصل کرتے رہے۔ واجد علی شاہ کے انتقال کے بعد نظام کالج حیدرآباد میں پروفیسر مقرر ہوئے ایک طویل عرصہ کالج کی خدمت کرنے کے بعد وظیفہ کالج حیدرآباد میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ ایک طویل عرصہ کالج کی خدمت کے بعد وظیفہ یاب ہوئے اور ولی عہد کو تعلیم دینے کی خدمت سپرد ہوئی۔ حسن کارکردگی کے صلے میں سرکار نظام کی جانب سے نواب حیدر یار جنگ کا خطاب عطا ہوا۔ اسی اثنا میں عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور دارالترجمہ قائم ہوا۔ ارباب اختیار نے نظمؔ کی علمی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے خیال سے ادبی ناظر کی حیثیت سے ان کی خدمات حاصل کیں۔ ذمہ داری یہ کہ نظمؔ تراجم پر نظر ثانی کرتے اور ان کی نوک پلک سنوارتے۔ 1933ء میں ان کا انتقال ہوا۔ مرتے دم تک وہ اردو شعروادب کی خدمت کرتے رہے۔

نظمؔ نے اردو میں نئے انداز کی نظمیں لکھیں اور اس سے بڑھ کر ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انگریزی نظموں کے انہوں نے ایسے دلکش ترجمے کیے کہ ان پر ترجموں کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ سب سے مشہور ترجمہ گرے کی نظم کا ہے۔ گرے نے ان مرنے والوں کا درد ناک مرثیہ لکھا ہے جو گمنام جیے اور گمنام مرگئے۔ نظمؔ نے مرثیے کا اردو میں ترجمہ کیا اور’گورغربیاں‘ نام دیا۔ اردو میں کوئی اور ترجمہ نہ اس پائے کا موجود ہے، نہ کسی ترجمے نے اتنی شہرت پائی۔ نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے؎

وداع روز روشن ہے گجر شام غریباں کا
چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے
قدم کس شوق سے گھر کی طرف اٹھتا ہے دہقاں کا
یہ دیرانہ ہے میں ہوں اور طائر آشیانوں کے

ان کی زبان سادہ ہے مگر اس سادگی میں غضب کی دلکشی ہے۔ نظم کی تشبیہیں اور استعمارے بھی بڑی جاذبیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے قصیدے بھی لکھے اور ان میں جدت پیدا کی۔ اردو شاعری کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے