aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دھیرے دھیرے ہم لوگ کلاسیکی ادب کے انتخاب پڑھنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کلاسیکی ادب بہت آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا ،انٹرنیٹ پر اس کی دستیابی اور بھی مشکل ہو جاتی ہے ۔ولی دکنی کی تخلیقی کائنات کے بارے میں ہم میں سے اکثر کی معلومات نصابی ضرورتوں کے لئے تیار کئے گئے انتخاب پر مبنی ہے ۔سو ولی دکنی کا دیوان حاضر ہے ۔ولی کو پڑھنا اور باربار پڑھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ولی کی غزل شعری اظہار ،زبان اور موضوعات کے حوالے سےایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے اور ساتھ ہی ولی کی غزل کلاسیکی اردو غزل کی شعریات کے مباحث کابنیادی حوالہ ہے ۔ دیوان ولی کا یہ نسخہ بہت نایاب نسخوں میں شمار ہوتا ہے اسے دیکھنا اور پڑھنا ایک عجیب مسرت کا باعث ہے۔ اس نسخہ میں پہلے چھ قصائد اور تین چار مثنویاں شامل ہیں۔ اس کے بعد باقاعدہ دیوان کی شروعات ہوتی ہے۔
یہ ولی ہیں۔ اردو غزل کے باوا آدم! اردو میں شاعری کا سلسلہ اگرچہ بہت پہلے امیر خسرو کے عہد سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ لیکن شعراء میں ہندی، ہندوی یا ریختہ کوجو اردو کے ہی دوسرے نام ہیں، وہ عزت و مرتبہ حاصل نہیں تھا جو فارسی کو حاصل تھا۔ شاعری فارسی میں کی جاتی تھی اور شعراء تفریحاً اردو میں بھی شعر کہہ لیتے تھے۔ یعنی شاعر رہتے تو ہندوستان میں تھے لیکن تقلید ایرانی شاعروں کی کرتے تھے۔ اس صورت حال نے احساس اور اس کے بیان کے بیچ ایک خلاء سا پیدا کر دیا تھا جسے پر کرنے کی ضرورت لازماً محسوس کی جاتی رہی ہو گی۔ ایسے میں 1720ء میں جب ولی کا دیوان دہلی پہنچا تو وہاں کے لوگ ایک حیران کن مسرت سے دوچار ہوئے اور ان کی شاعری خاص و عام میں مقبول ہوئی ان کے دیوان کی نقلیں تیار کی گئیں، ان کی غزلوں کی طرح پر غزلیں کہی گئیں اور ان کے سر پر ریختہ کی بادشاہت کا تاج رکھ دیا گیا۔ بعد کے نقادوں نے ان کو اردو کا "چاسر" قرار دیا۔ ولی کومیر تقی میر سے پہلے اردو غزل میں وہی مرتبہ حاصل تھا جو بعد میں اور آج تک میر صاحب کو حاصل ہے۔ ولی نے شعری اظہار کو نہ صرف یہ کہ ایک نئی زبان دی بلکہ اردو زبان کو ایک نیا شعری اظہار بھی دیا جو ہر طرح کے تصنع سے آزاد تھا۔ ولی فارسی شعراء کے برعکس، خیالی نہیں بلکہ جیتے جاگتے حسن کے پرستار تھے، انہوں نے اردو غزل میں اظہار کے نئے سانچے مرتب کئے، زبان کی سطح پر دلچسپ تجربات کئے جو رد و قبول کی منازل سے گزر کر اردو غزل کی زبان کی تعمیر وترقی میں مددگار ثابت ہوئے اور اردو غزل کی ایسی جاندار روایت قائم ہوئی کہ کچھ عرصہ تک ان کے بعد کے شعراء، ریختہ میں فارسی شعری روایت کو معیوب سمجھنے لگے۔ انہیں اردو میں جدید شاعری کی اولین تحریک کا بانی قرار دینا غلط نہ ہو گا۔ یہ ان کی شاعری کا تاریخی پہلو ہے۔
شاعری زبان کے تخلیقی اور فنکارانہ اظہار کا ہی دوسرا نام ہے۔ فارسی رسوم شاعری سے ہٹ کر اک نئی تخلیقی زبان کی طاقتور مثال پیش کرنا، جو نہ صرف قبول کی گئی ہو بلکہ جس کی تقلید بھی کی گئی ہو، ولی کا ایک بڑ ا کارنامہ ہے۔ انہوں نے عام ہندوستانی الفاظ مثلاً سجن، موہن، ادھک(زیادہ) نیہ(محبت)، پرت(پیار)، سُٹ(چھوڑنا، پنجابی)، انجھو(آنسو)، کیتا(کیا،پنجابی)، سکل(تمام، ہندی) کدی(کبھی، ہندی) کو خالص اردو اور فارسی الفاظ کے ساتھ جوڑ کرنئی ترکیبیں مثلاً "برہ کا غنیم"(دشمن فراق) "پرت سے معمور"(معمور عشق)"جیو کا کشور"(کشور حیات) "نور نین" (نور چشم)، "شیریں بچن"(شیریں زبان) اور "یوم نہان"(روز غسل) وغیرہ نئی ترکیبیں اس خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیں کہ وہ ایک زبان میں دوسری زبان کا بے جوڑ اور نا گوار پیوند نہیں بلکہ ایک خوبصورت "پیٹرن" اور فنکارانہ کمال کا ایک حسین نمونہ نظر آتی ہیں۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ ولی نے ایک ہی جھٹکے میں زبان کو الٹ پلٹ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جس طرح کوئی حکیم صحت کے لئے نسخہ تجویز کرتے ہوئے اس کی خوراک کی مناسب مقدار بھی طے کرتا ہے اسی طرح ولی نے زبان میں جو تجربات کئے اس میں اعتدال کو بھی ملحوظ رکھا اور نئی شعری زبان کے شانہ بشانہ ایسی زبان میں بھی شعر کہے جو آج کی اردو کی طرح صاف، رواں اور فصیح سمجھی جانے والی زبان میں ہیں۔ مجموعی طور پر فرحت بخش سادہ بیانی ولیؔ کی ایسی خصوصیت ہے جس میں کوئی دوسرا ان کا ثانی نہیں اور جو ان کو اردو کے تمام دوسرے شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔ ولی تشبیہات کے بادشاہ ہیں۔ نئی تشبیہ تلاش کرنا، استعارہ وضع کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے اور بہت کم شعراء نئی تشبیہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں مثال کے طور پر زلف کو لیجئے۔ زلف کے مضمون سے اردو اور فارسی شعراء کے دیوان بھرے پڑے ہیں اور اس کی تشبیہ میں بمشکل کوئی نیا پن نطر آتا ہے۔ اب ولی کے شعر دیکھئے۔ زلف تیری ہے موج جمنا کی/تل نزِک اُس کے جیوں سناسی ہے اور یہ سیہ زلف تجھ زنخداں پر/ناگنی جیوں کنوے پہ پیاسی ہے۔ پہلے شعر میں زلف کو جمنا کی موج اور اس کے نزدیک واقع تل کو سنیاسی سے تشبیہ دی گئی ہےا س کی معنوی خوبیوں کی وضاحت کا یہاں موقع نہیں دوسرے شعر میں زلف کو "پیاسی ناگن" سے تشبیہ دی گئی ہے زلف کی تشبیہ ناگن سے، نئی نہیں لیکن اسے پیاسی ناگن کہہ کر اس میں نیا لطف پیدا کر دیا اور ایک زہرناک وجود کو ایک حسین اور ہمدردی طلب وجود بنا دیا۔ ٹھوڑی کے گڑھے کو چاہ زنخداں کہا جاتا ہے لیکن ولی نے پہلے مصرع میں لفظ "چاہ" حذف کرکے دوسرے مصرع میں لفظ "کنوے" استعمال کیا جو فنکاری کا کمال ہے۔ اسی طرح زلف پر کاکل کو حسن کے دریا کی موج سے اور خم ابرو کو محراب دعا سے تشبیہ دینا ولی کی جدت طرازی کی چند مثالیں ہیں اور ایسی مثالیں ولی کے دیوان میں کثرت سے نظر آتی ہیں۔ ولی نے غلط نہیں کہا، کرتا ہے ولی سحر سدا شعر کے فن میں/تجھ نین سے سیکھا ہے مگر جادوگری کوں۔ ولی پرستار جمال تھے۔ حسن، فطرت کا ہو یا انسانی، ان کو دونوں متاثر کرتے تھے۔ ان کا محبوب عام طور پر، اسی دنیا کا چلتا پھرتا، جیتا جاگتا انسان ہے جس کی وہ طرح طرح سے تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ وہ معشوق کے ہجر میں جلنے کڑھنےاور دوسروں کو اپنا دکھڑا سنانے سے زیادہ اس سے مخاطب ہوتے ہوئے، اس سے باتیں کرتے ہوئے اور چن چن کر اس کی ہر ہر صفت کی تعریفیں کرتے نظر آتے ہیں اور اس رویہ نے ولی کو اردو شاعری کا ایک اہم سراپا نگار شاعر بنا دیا ہے۔ ولی کے یہاں "اُس" سے زیادہ "تجھ" کی ضمیر استعمال ہوئی ہے۔ وہ عام طور پر اپنے محبوب سے مخاطب رہتے ہیں، اس لئے درد ہجر اور کرب فراق کا بیان ان کے یہاں کم نظر آتا ہے۔ وہ ہجر سے زیادہ وصل کے شاعر ہیں لیکن وہ محبوب کے سامنے تہذیب اور ادب کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتےاُن کے یہاں نظیر اکبرآبادی جیسا پھکڑپن نہیں ملے گا، ہاں ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ کبھی کبھار کر لیتے ہیں جیسے، تجھ چال کی قیمت سے دل نئیں ہے مرا واقف/اے مان بھری چنچل ٹپک بھاو بتاتی جا۔ اس شعر میں جو ہلکی سی شرارت ہے اُس کو "قیمت" اور "بھاو" کی رعایت اور لفظ بھاو کی ذو معنویت کے ساتھ قیمت میں چال کی تخصیص نے جنسیت سے اوپر اٹھاتے ہوئے پر لطف بنا دیا ہے۔ ولی کے محبوب کا حسن شور انگیز ہی نہیں "آئینہ معنی نما" بھی ہے، جس کے بیان نے ان کے اشعار کو شوق انگیز بنا دیا ہے۔ تب سے ہوا ہے دل مرا کان نمک اے با نمک/جب سے سنا ہوں شور میں تجھ حسن شور انگیز کا( لفظ نمک اور شور کی رعایت بھی توجہ طلب ہے) اے ولی ہر دل کو لگتا ہے عزیز /شعر تیرا بسکہ شوق انگیز ہے۔ ان کی محبوبہ شوخ چنچل، موہنی، مان بھری، شیریں بچن اور گلبدن ہے جس کے سراپا کے بیان کے لئے وہ نت نئی ترکیبیں، تشبیہیں اور استعارے تلاش کرتے نظر آتے ہیں وہ فطرت کے حسن میں محبوب کا اور محبوب کے حسن میں فطرت کا حسن تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ دریا، موج، شفق، سورج، چاند اور دوسرے مظاہر فطرت میں ان کو اپنے محبوب کی جھلکیاں نظر آتی ہیں لیکن صوفیا کے رنگ سے ہٹ کر۔ ان کے یہاں محرومی، محزونی اور ہجر کا رونا دھونا برائے نام ہے۔ جو لوگ اردو غزل کو گل و بلبل کی شاعری کہہ کر منہ بناتے ہیں انہیں ولی کو ضرور پڑھنا چاہئے جہاں گل ہی گل ہے۔ تازہ، شگفتہ، عطربیز اور فرحت بخش۔ بلبل بس کبھی کبھی آ کر شور مچاتی ہے۔ ولی کے یہاں فلسفیانہ گہرائی، تصوف یا دل کو اداس اور سنجیدہ کر دینے والے اشعار کی تلاش غیر ضروری ہے۔ ان کے اشعار کی فرحت بخش تازہ کاری ہی ان کے کلام کا جوہر ہے۔ انہوں نے اردو غزل کو وہ راہ دکھائی اور وہ زبان عطا کی جو آگے چل کر اپنی بہترین شکل میں میر کے یہاں اور اپنی بگڑی ہوئی اور قدرے مبتذل شکل میں نظیر اکبرآبادی کے یہاں جلوہ گر ہوئی اور اردو غزل اپنے سفر کی نئی منزلیں طے کرتی رہی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets