Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

by انعام اللہ خاں یقین

دیوان یقین دہلوی

انعام اللہ خاں یقین کے دیوان کا تنقیدی ایڈیشن

by انعام اللہ خاں یقین

مصنف : انعام اللہ خاں یقین

ایڈیٹر : ڈاکٹر فرحت فاطمہ

ناشر : انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی

سن اشاعت : 1995

زبان : Urdu

موضوعات : شاعری, خواتین کی تحریریں

ذیلی زمرہ جات : دیوان

صفحات : 337

ISBN نمبر /ISSN نمبر : 81-7160-051-4

معاون : انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی

دیوان یقین دہلوی
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

زیر نظر کتاب "دیوان یقین دہلوی" انعام اللہ خان دہلوی کے دیوان کا تنقیدی ایڈیشن ہے، جس کو ڈاکٹر فرحت فاطمہ نے ترتیب دیا ہے۔ مرتب نے یقین دہلوی کی حیات، وفات، سیرت اور ان کی شاعری پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، اس کے علاوہ شاعری میں ان کے مرتبے، ایہام گوئی کی ان کی مخالفت اور سادہ گوئی کی قیادت کا ذکر بھی مفصل طور پر کیا ہے۔ اصلاحی تحریک اور لسانی خدمات میں انہوں نے جو اہم کردار ادا کیا ہے، اس پر بھی بحث کی گئی ہے۔ نیز یقین کی لفظیات، فرہنگ اور حواشی وغیرہ بھی اس دیوان میں موجود ہیں۔ غرض یہ کہ انعام اللہ خان یقین کے متعلق اور ان کی شاعری کے متعلق مکمل معلو مات حاصل کرنی ہو تو یہ بے حد جامع کتاب ثابت ہوگی۔۔۔ خیال رہے کہ ایہام گوئی کے خلاف تحریک گو کہ مرزا مظہر جان جاناں نے شروع کی اور اس میدان میں اپنے شاگردوں کی تربیت کی۔ اور اردو شاعری میں تازہ گوئی کا آغاز بھی مرزا مظہر نے ہی کیا لیکن اس تحریک کے میر کارواں بننے کا شرف انعام اللہ خان یقین کو حاصل ہوا۔ یقین کا شمار اردو کے جوان مرگ شاعروں میں ہوتا ہے، لیکن کم عمری میں ہی ان کی شہرت گلاب کے پھول کی طرح شمال سے جنوب تک پھیل گئی تھی یہاں تک کہ حاتم جیسے جگت استاد نے سب سے زیادہ طبع آزمائی یقین ہی کی زمینوں میں کی۔۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

انعام اللہ خاں یقینؔ مرزا مظہر جان جاں کے مشہور شاگرد ہیں اور مصحفیؔ راوی ہیں۔ یقینکی تاریخ پیدائش فرحت اللہ بیگ کی تحقیق کے مطابق1140ھ 1727ء ہے ۔ حال آں کہ تعجب معلوم ہوتا ہے کہ ایک بارہ برس کے لڑکے نے ایسی مربوط غزل کہی ہو کہ 1125ء میں حاتمؔ جیسے مشتاق استاد نے اس کی غزل پر غزل لکھی ) اس وقت اس کے ہم عصر سب اسی قسم کی شاعری کررہے تھے اور یقیناًاس میں ان کا پیہ بلند تھا ۔ یہ عمر29سال 1169میں ان کا انتقال پر اسرار طریقے پر ہوا ۔ قاتل اور وجہ قتل صحیح تحقیق نہیں ہوسکی۔ ان کے متعلق یہ مشہور تھا کہ مظہرؔ اپنے اشعار ان کو دے دے کرتے تھے ۔ لیکن خارجی داخلی شواہد سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی (فرحت اللہ بیگ نے دیوان یقینؔ کے مقدمے میں اس موضوع پر مدلل بحث کی ہے ) میرؔ نے خوا ہ مخواہ ان کی برائی لکھی ہے ۔ ان کی ہر غزل پانچ اشعار کی ہوتی ہے ۔ کلام ان کا واقعی بہت پختہ ہے اور خوب ہے گرویزیؔ اور شفیقؔ نے توبے انتہا تعریف کی ہے ۔ قائمؔ نے بھی صدر نشین بزم شعرائے متاخرین لکھا ہے اور عبدالحی نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ۔ ’’اگر یقین جیتے رہتے تو میر و مرزاؔ کسی کا چراغ ان کے سامنے نہیں جل سکتا تھا خود یقینؔ کے زمانے میں ان کی کافی قدر تھی ۔ ان کی غزلوں پر تقریبا سب استادوں نے غزلیں کہی ہیں ۔ حاتمؔ نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے اور شفیقؔ نے تو ان کی ہر غزل پر غزل لکھی ہے اور اگر یقینؔ کا یہ دعویٰ کہ طرز یں سخن کی اس کے تم نے اڑائیاں ہیں ۔ تسلیم کرلیا جائے تو ان طرزوں کا موجد یقینؔ ہی کو ماننا پڑے گا ۔ مظہر ؔ کی طرح انہوں نے بھی ایہام کی الجھنوں سے شاعری کو نکالا جس کا ذکر مصحفیؔ نے بھی کیاہے۔ شاعری ہے لفظ و معنی سے تری لیکن یقینؔ کون سمجھے یاں تو ہے ایہام مضمونؔ کی تلاش یقینؔ نے دیگر اساتذۂ عصر کی طرح فارسی محاروں اور ضرب الامثال کو اردو کا جامہ پہنایا ہے ۔ الغرض ان کا کلام استادانہ ہے ۔ زمینیں ہمیشہ شگفتہ نکالتے ہیں ۔روزہ مرہ کے ساتھ زور کلام عجب لطف دیتا ہے۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے