aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
حاتم کا یہ دیوان 1755میں مرتب ہوا تھا۔ اٹھارہویں صدی کے اوائل میں شمالی ہندوستان میں جن شعرا کے فیضانِ سخن سے اردو شاعری کا چراغ روشن ہو اُن میں ظہور الدین حاتم خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ دہلی میں اردو شاعری کی ابتدا ایہام گوئی کی ادبی تحریک کے زیرِ اثر ہوئی۔ اس عہد کے بیشتر شعرا(آبرو، حاتم، شاکر ناجی، مضمون، یک رنگ، مظہر، یقین وغیرہ) ہمہ وقت ایسے الفاظ کی کی تلاش و جستجو میں سر گرداں رہتے تھے جو ذو معنی ہوں۔ جس کے نتیجے میں اردو شاعری ایک نوع کی پہیلی اور گورکھ دھندا بن گئی تھی۔ آمد کے بر عکس آورد کے عملِ شدید نے شعر سے داخلی جذبوں، متصوفانہ فکر اور دروں بینی کے میلانات کو پوری طرح بے دخل کر دیا تھاجو اُس وقت کی فارسی شاعری کے نمایاں اوصاف تھے (حالانکہ فارسی شاعری میں بھی ایہام کا استعمال موجود تھا)۔ یہام گوئی کی تمام خامیوں کے با وجود یہ بات بھی سچ ہے کہ اردو زبان اور اُس کی کی شاعری میں ہندی نیز دیسی زبان کے ایسے متعدد الفاظ شامل ہو گئے جو ذو معنویت کی صفت سے متصف تھے۔ لیکن اس ضمن کا سب سے بڑا واقعہ یہ ہے کہ جب 1720میں ولی کا دیوان دہلی پہنچا تو اُس کے مطالعے کے بعد دہلی کے شعرا میں یہ احساس پیدا ہوا کہ شاعری محض ذو معنی الفاظ کے استعمال اور محبوب کے خارجی خد و خال کے اظہار کا نام نہیںبلکہ اس میں ہر نوع کی کیفیت کو بیان کرنے کی غیر معمولی قوت موجود ہے۔ لہٰذا اسی احساس کے نتیجے میں دہلی کے شعری معا شرے میں اصلاحِ زبان کی تحریک کا آغاز ہوتا ہے۔ اس ضمن میں حاتم اور مظہر جانِ جاناں کے نام سرِ فہرست ہیں۔ یوں توحاتم کثیر الاشعار شاعر تھے اور اُنھوں نے اپنا ایک ضخیم دیوان بھی مرتب کیا تھا۔ لیکن اصلاحِ زبان کی تحریک کے بعد اُن پر غزل اور ریختے کے بیچ کا فرق واضح ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ حاتم غزل یا ریختے میں دروں بینی کی اُس روایت کے حامی بن گئے جو ولی دکنی سے شروع ہوتی ہے۔ بقول حاتم “در ریختہ ولی را استاد می داند”۔ شائد یہی وجہ تھی کہ وہ فارسی میں صائب اور اردو میں ولی کو اپنا استاد تسلیم کرتے تھے۔ ولی کے اثرات اور اصلاحِ زبان کی تحریک کے نتیجے میں اُنھوں نے اپنے ضخیم اردو دیوان سے ایسے اشعار ِ کثیرہ نکال دیے جن میں یہام اور خارجی معاملات کا اظہار موجود تھا۔ اُنھوں نے نو مرتب دیوان کا نام” دیوان زادہ “رکھا جو مختصر ہے۔ لیکن حاتم نے اس دیوان کا ایک اہم دیباچہ لکھا ہے۔ جس میں میں اُنھوں نے یہام گوئی، اصلاحِ زبان کی تحریک، اور اُ س زمانے کی ادبی تہذیب کی صورتِ حال بیان کی ہے۔ دیکھا جائے تو دیوان زادہ کا یہ دیباچہ نظری نوعیت کی تحریر معلوم ہوتا ہے۔ اور اس نظری تحریر سے نہ صرف یہ کہ اُس زمانے کی ادبی صورتِ حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے بلکہ اس کے توسط سے خود حاتم کے نظریہ شعر کو بھی بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
شیخ ظہور الدین نام حاتمؔ تخلص کرتے تھے اور شاہ حاتمؔ کہلاتے تھے لفظ ظہور میں ان کی تاریخ ولادت پنہاں ہے (یعنی11 11ھ خاص دہلی کے رہنے والے سپاہی پیشہ آدمی تھے ۔ کسی بزرگ محمد امین کے مرید تھے ۔ نواب عمدۃ الملک امیر خاں صوبہ دار الہ آباد کے مطبخ کے داروغہ تھے ۔ امیر خاص کے بعد ہدایت علی خاں، مراد علی خاں، فاخر خاں وغیرہ امراء کبھی کبھی ملازمت دے کر مالی مدد کرتے رہے آخر میں تعلقات ظاہری سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی ۔ نہایت متین اور مہذب بزرگ اور شعرائے طبقہ دوم میں سربرآوردہ تھے مرزا سوداؔ ان کے ایسے شاگرد تھے جن پر استاد کو فخر تھا اور اکثر کہا کرتے تھے ۔ رتبۂ شاگردئ من نیست استاد مرا سعادت یار خاں رنگینؔ ، محمد امان ،نثار ؔ مکند سنگھ فارغؔ بھی ان کے شاگردوں میں سے تھے ۔ شاہ صاحب کے مزاج میں ظرافت بہت تھی قلعہ دہلی کے نیچے شاہ تسلیم ایک آزاد منیش فقیر کا تکیہ تھا وہاں روزانہ نشست رہتی ، شاہ حاتم کا ابتدائی رنگ ایہام گوئی تھا ۔ بعد کو یہ رنگ ترک کردیا تھا زبان کی درستی کی طرف بھی متوجہ ہوئے بہت سے غیر مانوس اور غیر فصیح الفاظ ترک کردیے مگرافسوس ہے کہ ان کے معاصرین نے اس طرف کافی توجہ نہیں کی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شخص کا محدود مگر مفید خیال زیادہ پھیلنے نہ پایا ۔ شاہ حاتمؔ اپنے مقدمہ دیوان زادہ میں لکھتے ہیں ۔(الخ) خیال ناسخؔ آتش، یا ذوقؔ و مومن کے وقت میں پیدا ہوا تھا ۔ اس کی ابتدا تقریبا ایک صدی پیش تر ہی ہوچکی تھی۔ فرق صرف اتنی ہے کہ بعد میں اس اصول کی پابندی خواص و عوام دونوں کے لیے ضروری کردی گئی اور بے چارے شاہ حاتمؔ کی بات ان کے منہ اور قلم سے نکل کر دیوان زادہ تک محدود رہی بہرحال اصلاح زبان کے خیال کرنے والوں میں پہلا نمبر شاہ حاتمؔ کا ہے ۔ ان کا پہلا دیوان درّانی تاخت و تاراج میں ضائع ہو گیا ۔ دوسرا دیوان مسمی بہ دیوان زادہ باقی ہے ۔ جس میں غزلیں ، مخمس ،رباعیاں، مستزاد ترجیع بند، ساقی نامہ، دو مثنویا قہوہ اور تمباکو کی تعریف میں اور ایک شہر آشوب بعنوان بارہ صدی ہے جس میں محمد شاہی عہد کی معاشی زبوں حالی کا نقشہ خوب پیش کیا ہے ۔ غزلوں میں مضامین ان کے عاشقانہ و عارفانہ ہیں ۔ شعر آپس کی باتیں ، زبان شستہ اور رفتہ البتہ زبان کی ابتدائی حالت ہونے کے بعد دیگر قدما کے طرح زائد الفاظ مثلاً اب اور یہاں اکثر آجاتے ہیں دیوان زادہ کے دیباچہ میں اپنے شاگردوں کے 45نام گنائے ہیں ۔ ان میں مرزا محمد رفیع سوداؔ بھی ہیں ۔ دیوان زادہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تاباںؔ نے بھی ان سے اصلاح لی ہے ۔ مضمون شیخ شرف الدین نام جاجو ( جاج مؤ) ضلع اکبرآباد کے رہنے والے تھے جوانی ہی میں دہلی آگئے اور زینت المساجد میں مقیم ہوئے اور ہیں ہمیشہ رہے باجود یہ کہ سن رسیدہ تھے لیکن خان آرزو کو غزلوں کو دکھاتے اور اصلاح لیتے تھے نزلہ سے دانت گر گئے تھے اس لیے خان مذکور انہیں شاعر بے دانہ کہتے تھے ۔ فریدالدین شکر گنج کی اولاد میں سے تھے ۔ کریں کیوں نہ شکر لبوں کو مرید کہ دادا ہمارا ہے بابا فرید آدمی خوش مزاج ، بااخلاق اور یار باش تھے اور اسی مسجد میں صحبتیں گرم رہا کرتی تھیں۔1147ھ مطابق1734ء میں وفات پائی۔(دیوان تاباں)
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets