aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شاہ عالم ثانی کے زمانے سے بہادر شاہ ظفر تک قلعہ میں جو زبان و بیان کے سانچے تیار ہوتے رہے انہیں پر دہلی والوں نے اکتفا کیا اور وہی زبان اس زمانے میں تقلید کا نمونہ بنی ۔ دہلی ایک عالمی شہر تھا دنیا جہاں کے لوگ بسے ہوئے تھے زبان وبیان میں پوربیا اور پنجابی لہجہ بھی تھا لیکن فصیل بند شہر یوں کا کما ل یہ تھا کہ انہوں نے کسی دسری زبان کے سانچے کو قبو ل نہ کرتے ہوئے صرف قلعہ معلی کی ہی تقلید کی ۔ چنانچہ قلعہ سے باہر مومن و غالب جیسے منفر د شاعر پیدا ہوتے رہے اور قلعہ کے اندر ذوق و ظفر سے ہوتی ہوئی قلعہ کی زبان کی روایت داغ تک پہنچ جاتی ہے ۔ ان کے بعد اس زبان کے خوشہ چینوں میں منشی فیض الدین ، ناصرنذیر فراق، ڈپٹی نذیر احمد ، فرحت اللہ بیگ ، وزیر حسن ، راشد الخیر ی ، میرناصر علی ، مرزا محمود بیگ او را س کتاب کے مصنف ہیں ۔ ان کے یہا ں دہلی کی زبان وہاں کے محاروں کے ساتھ نظرآتی ہے ۔ یہ کتاب دہلی کے محاور وں پر ہے ،اسی و جہ سے کہا جاتا ہے کہ باغ و بہار میں دہلی کی محاوراتی زبان استعمال ہوئی ہے ۔ محاورہ کا زیادہ تر تعلق خواتیں سے ہوتا ہے یعنی گھر کی زبان سے نہ کہ بازار و شہر کی زبان سے ۔ محاورات میں اس زمانے کی لفظیات اور زبان کے تہذیبی و استعاراتی استعمال کی مر وجہ صورتوں کو محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ الغرض دہلی کے محاورے سے اس زمانے کی تخلیقات سے مکمل استفادہ کیا جاسکتا ہے جس کے لیے یہ کتاب بہت ہی مفید ہے ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets