aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اصل نام ہرچن داس ہے لیکن ادبی نام ہرچرن چاولہ اختیار ان کے والد کا نام کیول رام تھا۔ چاولہ 3 نومبر 1925ء کو داؤد خیل (ضلع میانوالی، پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن بھی یہیں ہے۔ موصوف نے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا۔ چاولہ مختلف جگہوں پر قیام پذیر ہوتے رہے۔ میانوالی سے ملتان، راؤلپنڈی، دہلی، ممبئی یہاں تک کہ فرینک فرٹ ہوتے ہوئے جرمنی پہنچ گئے اور آخر میں یہی مستقر ٹھہرا۔ ناروے میں ایک اہم لائبریری کے مشیر بنائے گئے۔ اسی عہدے سے وابستہ تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا۔
چاولہ بنیادی طور پر افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ ملک اور بیرون ملک کے مؤقر رسالوں میں ان کے افسانے شائع ہوتے رہے ہیں پھر انہوں نے ناول نگاری کی طرف توجہ کی تو کئی ناول لکھ ڈالے۔ اپنی زندگی کے کیف و کم کو ’’البم‘‘ نامی ایک کتاب میں درج کر ڈالا۔
موصوف دنیا کے ایک بڑے حصے میں سفر کرتے رہے، لہٰذا ان کی فکر کے آفاق میں مسلسل توسیع ہوتی رہی۔ جس کا عکس ان کے افسانوں اور ناولوں میں ملتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ چاولہ یوں تو کسی ایک ملک کے شہری ہوسکتے تھے لیکن ان کی شہرت ان کے وسیع تر تجربے اور مشاہدے کی بنا پر بین الاقوامی سطح تک آ گئی۔ میں نے یہ امور اس لئے قلمبند کئے کہ انہیں نکات کی عقبیٰ زمین میں ان کی تخلیقی کاوشوں کو سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے۔ یہاں ٹھہر کر ان کی بعض کتابوں کا نام نقل کر رہا ہوں:
’’درندے‘‘ (ناول 1978ء)، ’’عکس آئینے کے‘‘(افسانے 1975ء)، ’’ریت سمندر اور جھاگ‘‘ (افسانے 1980ء)، ’’چراغ کے زخم‘‘ (ناول 1980ء)، ’’بھٹکتے ہوئے لوگ‘‘ (ناول1984ء)، ’’دل دماغ اور دنیا‘‘ (افسانے 1992ء)، ’’گریباں جھوٹ بولتا ہے‘‘ (افسانے 1996ء)، ’’دریا اور کنارے‘‘ (افسانے 1995ء)، ’’تم کو دیکھیں‘‘(سفر نامہ 1992ء)، ’’البم‘‘ (یادیں1990ء)۔
ہرچرن چاولہ 1948ء سے باضابطہ افسانہ لکھنے لگے تھے۔ لیکن ناروے میں قیام کے بعد ان کی رفتار تیز ہوگئی۔ یوں تو ان کے اکثر افسانے پسند کئے گئے لیکن ’’گھوڑے کا کرب‘‘ انتہائی فنکارانہ انداز میں پیش ہوا ہے۔ دراصل چاولہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آج بھی محنت تقریباً رائیگاں جاتی ہے، اتنا ہی نہیں اسی بنیاد پر تفریق بھی پیدا کی جاتی ہے۔ یہاں گھوڑا ایک علامت ہے جو محنت کا سمبل بن گیا ہے۔ ایسے لوگ جو ملازمتوں کی تلاش میں ملک سے باہر رہتے ہیں ان کے لئے یہ صورت اور بھی سنگین ہوجاتی ہے۔ اس طرح کے کئی کردار ایسے ہیں جو مجبوری کا عکس پیش کرتے ہیں۔ جیسے ’’آتے جاتے موسموں کا سچ‘‘، ’’دوسا‘‘وغیرہ۔ ان سب میں کوئی نہ کوئی فکری عنصر ابھارا گیا ہے۔ نئی نسل پر کیا کچھ گذر رہی ہے وہ ان افسانوں کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے۔ موصوف کا ایک مشہور افسانہ ہے ’’ریت سمندر اور جھاگ‘‘ یہ بھی اپنی نوعیت کا اہم افسانہ ہے اور اس کے کردار زندگی کی نیرنگی بھی ظاہر کرتے ہیں اور رشتے ناطوں کی کیفیت بھی، مادی حالات کا عکس بھی پیش کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے دوسرے افسانے جیسے ’’ڈھائی اکھشر‘‘، ’’قفس‘‘، ’’سانپوں کا جوڑا‘‘، ’’انگارا‘‘ وغیرہ اہم افسانے ہیں۔
دراصل ہرچرن چاولہ کے افسانوں میں دیہات اور شہر کی کئی طرح کی زندگیاں منعکس ہوگئی ہیں۔ ان کے افسانوی کردار سے بحث کرتے ہوئے مشہور شاعر مظہر امام لکھتے ہیں:۔
’’ہرچرن چاولہ نے 1948ء میں افسانہ نگاری شروع کردی تھی۔ ان کی افسانہ نگاری کی نصف صدی مکمل ہوچکی ہے۔ ان کے ابتدائی دور کے افسانے میں نے نہیں دیکھے اس لئے کچھ کہہ نہیں سکتا، ان پر ترقی پسندی کا کتنا اثر تھا۔ جدیدیت کی گہماگہمی کے زمانے میں شاذ ہی کسی ’جدید‘ رسالے میں دکھائی دئیے۔ اس لئے ان کی شناخت ذرا دیر سے قائم ہوئی۔ ایسے کئی اہم لکھنے والے تھے یا ہیں جن کی پہچان کسی تحریک یا رجحان کے حوالے سے نہیں۔ ہرچرن چاولہ بھی ان میں سے ایک ہیں اور یہ خوشی کی بات ہے کہ جو کچھ بھی وہ ہیں، اپنی تحریروں کے بل بوتے پر ہیں۔ کسی خارجی سہارے کی بنا پر نہیں۔‘‘
یوں تو چاولہ نے ناول بھی لکھے ہیں لیکن ان کے ناولوں کے موضوعات بھی وہی ہیں جو مختلف افسانوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ پھر بھی ایک بات جو ان کے ناولوں میں کلیدی حیثیت اختیار کرلیتی ہے وہ زمانے کا ہیجان ہے اور اس ہیجان میں امن اور سکون کی تلاش۔ مختلف کردار سے موصوف اسے پہلوؤں کو واضح کرتے رہے ہیں۔
ہرچرن چاولہ پر بحث ان کی خود نوشت ’’البم‘‘ کے تذکرے کے بغیر نامکمل رہے گی۔ یہ دراصل ان کی یادوں کی برات ہے جس میں بچپن کی معصومیت سے لے کر عشق اور جنگ کے مرحلے تک زیر بحث آئے ہیں۔ اس میں جہاں تہاں ان کی افسانہ نگاری اور دوسرے پہلوؤں کا بھی احاطہ ہے۔
ان کا انتقال 6 دسمبر 2001ء کو اوسلو، ناروے میں ہوگیا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets