aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دہلی نے عروج و زوال کی ان داستانوں کو بارہا دیکھا ہے جسے ہم کہانیوں میں پڑھتے ہیں۔ بارہا بار وہ اجاڑ دی گئی جسے غیروں کے ساتھ اپنوں نے بھی تاراج کیا۔ دلّی کے اُجڑنے کا نوحہ کس نے نہیں پڑھا۔ ہر حساس دل نے دلی کو اپنے آنسوؤں کے نذرانے پیش کیے۔ مرزا فرحت اﷲ بیگ، خواجہ حسن نظامی، ڈپٹی نذیر احمد، شاہد احمد دہلوی اور نجانے کتنی ہی نادر و نابغہ روزگار ہستیاں ہیں، جو دلّی کے ماتمی جلوس میں گریا کناں ہیں۔ میر تقی میر، خواجہ میر درد اور غالب کس کس کو یاد کیا جائے۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ زیر نظر اشرف صبوحی دہلوی کی کتاب "دلّی کی چند عجیب ہستیاں" اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یوں تو سب بڑے نامور لوگوں کے خاکے تحریر کرتے ہیں، لیکن اشرف صبوحی دہلوی نے بہت عام سے لوگوں کے خاکے تحریر کیے ہیں۔ خاکے ہی نہیں ان کی حالت زار اور اتنے دل چسپ پیرائے کہ آپ ہنستے ہنستے پیٹ میں بَل پڑجائیں اور روتے روتے ہنسنے لگیں۔ میر باقر علی داستاں گو، مٹھو بٹھیارا، گھمی کبابی، ملن نائی اور نجانے کتنے ہی ایسے اجڑے ہوئے مجسمے، ماتم کناں زندہ لاشیں، ہمیں اس کتاب میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان تذکروں میں درد و کرب ہے اور حسرت و یاس بھی۔ عیش و عشرت کے زمانے ہیں اور عسرت و تنگ دستی کی داستان بھی۔ تاریخ بھی ہے اور سماجی، سیاسی و اقتصادی حالات بھی۔ اور سب سے اہم دلی کی محاوراتی چٹخارے لیتی زبان، کہ پڑھ کر لطف دو بالا ہوجائے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free