aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
عبدالصمد کا ناول ''دو گز زمین" ایسے وقت میں لکھا گیا جب ملک کی آزادی کو قریب چار دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر گیا مگر اس کی پیشکش کو اس پیرائے میں ڈھالا گیا جیسے ملک کی آزادی گئے سال کا واقعہ ہو۔ تقسیم کا کرب اور ایک بھرے پرے خاندان کی آپ بیتی کے ساتھ ہی حقیقت نگاری پر مبنی اس ناول نے واقعی عبدالصمد کو اردو ادب میں زندہ و جاوداں کر دیا۔ ناول کا دورانیہ خلافت تحریک سے حصول آزادی تک ایک لمبے جد وجہد کی کہانی ہے۔ انہوں نے محض پندرہ سال کی عمر سے لکھنا شروع کیا تھا، تاہم 'دو گز زمین' کی مقبولیت کے سبب ان کی تمام سابقہ تحریروں کو بھی قارئین پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ یکے بعد دیگرے انہوں نے ''مہاتما، خوابوں کا سویرا، مہا ساگر" اور ''دھمک" جیسے ناول بھی لکھے اور تمام ناولوں کو ارباب ذوق نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ ادب میں ان کی دلچسپی افسانہ نگاری سے شروع ہوئی، پہلا افسانہ ''بارہ رنگوں والا کمرہ" ۱۹۸۰ میں شائع ہوا اور۱۹۸۱ میں اسی نام سے ان کا افسانوی مجموعہ سامنے آیا جسے اتر پردیش اردو اکادمی کی جانب سے انعام دیا گیا۔ دوسرا مجموعہ ''پس دیوار" کو بہار اردو اکادمی نے ۱۹۸۳ میں انعام سے نوازا۔ ''سیاہ کاغذ کی دھجیاں، میوزیکل چیئر، آگ کے اندر راکھ" وغیرہ دیگر افسانوں کا بھی خوب شہرہ رہا۔ ان کا سب سے نیا ناول ''کشکول" ہے جو ۲۰۲۰ کے لاک ڈاؤن کے دوران ہنگامی ماحول میں لکھا گیا۔ اس طرح اب تک گیارہ ناول اور پانچ افسانوی مجموعوں کے بڑے سرمائے سے انہون نے اردو ادب کو مزید مالامال کیا ہے۔ عبدالصمد کی پیدائش ریاست بہار کے نالندہ میں ۱۸ جولائی ۱۹۵۲ کو ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ ۱۹۷۳ میں مگدھ یونیورسٹی سے پالیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا۔ آر این کالج حاجی پور میں بطور پرنسپل خدمات انجام دیں، پھر اورینٹل کالج پٹنہ میں پرنسپل رہے۔ ۲۰۰۲ میں سنڈیکیٹ ممبر آف مگدھ یونیورسٹی منتخب ہوئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets