aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ابرہیم جلیس اردو کے معروف طنز و مزاح نگار ، افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ کم عمری سے ہی انھوں نے افسانے لکھنے شروع کئے۔انھوں نے افسانے کے ساتھ انشائیہ اوررپورتاژ نگاری میں بھی طبع آزمائی کی۔انسانی نفسیات کا گہرا مطالعہ ان کی تصنیفات کی جان ہے۔ابراہیم جلیس ادبی ذوق کے ساتھ سیاسی شعور بھی رکھتے تھے۔ زیر نظر ابراہیم جلیس کا دوسرارپورتاژ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ ہے جس کو اردو ادب کا شاہکار رپورتاژ کہا جا تاہے۔ اس رپورتاژ میں ریاست حیدرآباد کے آخری دور کی داستان رقم ہے۔ اس رپورتاژ میں اس وقت کا حیدر آباد مکمل طور چلتا پھرتا اور بولتاچالتا دکھائی دیتا ہے۔ ابرہیم جلیس نے رپورتاژ کی شکل میں تقسیم ہند کا نوحہ رقم کیا ہے۔ یہ رپورتاژ ایک دلدوز رپورتاژ ہے۔ جس کو ایک ناول کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس میں افسانے کا وحدت تاثر بھی ہے۔ ڈرامے کی روانی اور حرکت بھی موجود ہے۔ اس میں خودنوشت کی چاشنی بھی پائی جاتی ہے۔ فسادات کے ادب پر یہ ایک ایسا دستاویز ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ مجموعی طور پر یہ رپورتاژ آنسووں اور آہوں سے تربتر موثر مرقع ہے۔
ابراہیم جلیس کا تعلق حیدرآباد دکن کی مردم خیز سرزمین سے تھا۔ وہ 11 اگست 1922ءکو بنگلور میں پیدا ہوئے لیکن ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گلبرگہ حیدرآباد دکن میں ہوئی۔ 1942ءمیں انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کیا اور تقریباً اسی زمانے میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ابراہیم جلیس کی صحافتی زندگی کا آغاز حیدرآباد دکن سے ہی ہوا۔ 1948ءمیں وہ پاکستان چلے آئے یہاں وہ مختلف اخبارات سے وابستہ رہے جن میں امروز، انجام، جنگ، حریت اور مساوات شامل تھے۔ وہ کچھ عرصے روزنامہ انجام کے مدیر بھی رہے اور انہوں نے اپنا ایک ہفت روزہ بھی عوامی عدالت کے نام سے جاری کیا۔ عمر کے آخری حصے میں وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمان روزنامہ مساوات کے مدیر تھے جو 1977ءمیں مارشل لاءلگنے کی وجہ سے حکومت کی زیر عتاب آگیا۔ لیکن ابراہیم جلیس نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور اسی جدوجہد کے دوران 26 اکتوبر 1977ءکو دماغ کی شریان پھٹنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔ابراہیم جلیس ایک بہت اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کا پہلا افسانہ ”رشتہ“ فروری. 1943ءمیں ساقی میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے متعدد کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں زرد چہرے، چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، اوپر شیروانی اندر پریشانی، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابل ذکر ہیں۔
ابراہیم جلیس کے انتقال کے 12 برس بعد 14 اگست 1989ء کو حکومت پاکستان نے جناب ابراہیم جلیس کی خدمات کے اعتراف میں انہیں بعدازمرگ تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets