aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
بر عظیم پاک و ہند کے ادب میں دوہے کی صنف کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دوہے کے سوتے اس خطے کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار و روایات سے پُھوٹے ہیں۔اس خطے میں دوہے کے ابتدائی نقوش کا تعلق پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی سے ہے،یہی وہ زمانہ ہے جب مقامی بولیوں اور پراکرت میں مقامی شعرا نے دوہے کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا۔تاریخی اعتبار سے یہ بات مسلمہ ہے کہ بہ حیثیت ایک مقبول صنف شاعری دوہے کو بر عظیم کی کئی زبانوں کے تخلیق کاروں نے اپنایا اور اُن کے اُسلوب کی عوامی سطح پر وسیع پیمانے پر پذیرائی بھی ہوئی،جن مقامی زبانوں میں قدیم دوہے لکھے گئے، اُن میں پنجابی، سندھی، برج بھاشا،مگدھی اور اودھی قابلِ ذکر ہیں۔دوہے کی صنف کو خون دل سے سینچ کر پروان چڑھانے والے تخلیق کاروں میں بہت سے نام شامل ہیں ۔شیخ العالم حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر بارہویں صدی کے مسلمان مبلغ اور صوفی بزرگ ہیں۔ ان کو قرون وسطی کے سب سے ممتاز اور قابل احترام صوفیا میں سے ایک کہا گیا ہے۔ ان کا مزار پاک پتن، پاکستان میں واقع ہے۔بابا فرید کے دوہوں کی زبان بہت ہی صاف اور واضح ہے،بابا فرید کی شاعری میں تصوف اخلاقی رنگ اور نصیحت آمیز مضامین موجود ہیں ان کے سندھی اشعار پر وہاں کے پنجابی اور سرائکی لھجے کا اثر غالب آتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وادی سندھ کی زبان اسی طرح تھی جس کا عکس بابا فرید کی شاعری میں ملتا ہے،شیخ فرید الدین نے ابلاغ کے لیے مقامی زبان شعار کی اور اسی کے وسیلے سے اپنا پیغام پہنچایا۔ آپ کی زبان پنجابی کا اولین نقش کہلائی جاتی ہے،بابا فرید کے دوہے عظیم شاعری کا نمونہ ہی نہیں بلکہ موسیقی کی بندشوں میں آ کر جو سماں پیدا کرتے ہیں وہ کم شاعروں کو ہی نصیب ہو سکتا ہے۔ بابا فرید کی شاعری کی لاانتہا فلسفیانہ، فنکارانہ اور سماجی جہتیں ہیں۔ پیش نظر بابا فرید کے دوہے ہیں جن کو پریمی نے مرتب کیا ہے۔ دوہوں کی بہتر تفہیم کے لئے ان کا اپدیش (پیغام) آسان اردو میں سمجھایا گیا ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free