aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زاہدہ زیدی اپنے دور کی ایک منفرد اور کامیاب ڈرامہ نگار ہیں۔ ان کے مشہور ڈرامائی مجموعے "دوسرا کمرہ" اور "صحرائے اعظم" ہیں۔ ان کے ڈرامے جدید رجحانات کے آئینہ دار ہیں۔ انہوں نے مغربی طرز کے کئی اچھے ڈرامے اردو ادب کو عطا کئے جو اردو ادب میں شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں۔ زیر نظر کتاب "دوسرا کمرہ" ان کے پانچ ڈراموں کا مجموعہ ہے۔ جس میں چٹان، دل ناصبور، دوسرا کمرہ، وہ صبح کبھی تو آئیگی، اور جنگل جلتا رہا، شامل ہیں۔ ان ڈراموں کے مطالعے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ زاہدہ کا مطالعہ وسیع اور فکری نظریہ بلیغ تھا جس کے سہارے انہوں نے اپنی فکر کو فن کے قالب میں ڈھال دیا۔
زاہدہ زیدی ایک ممتاز شاعرہ، ڈرامہ نگار،ناول نگار، محقق اور مترجم تھیں۔ مشہور شاعر مولانا حالی ان کے پر نانا تھے۔ ان کےوالد مستحسن حسین زیدی کیمرج یونیورسٹی میں پڑھے تھے اور میرٹھ کےایک ممتاز بیرسٹر تھے۔ 1936 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ زاہدہ اپنی چار بہنوں اور والدہ کےساتھ پہلے پانی پت میں چند سال رہیں اس کے بعد ان کی پوری تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوئی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی میں پروفیسر تھیں اس سے پہلے چند سال دہلی یونیورسٹی کے مرانڈا ہاوس اور لیڈی ارون کالج میں انگریزی کی لکچر رہیں۔ انھوں نے سماجی، نفسیاتی اور فلسفیانہ موضوعات پر انگریزی اور اردو میں 30 کتابیں تصنیف کیں۔ چیخوف، سارتر، بیکٹ، پراندلیو اور آئنسکو کی تخلیقی تحریروں کا ترجمہ اردو میں کیا۔ وہ خود بہت اچھی ڈرامہ نگار تھیں اور کئ ڈرامے خود پروڈیوس اور اسٹیج بھی کئے۔ ان کی بڑی بہن ساجدہ زیدی بھی ایک ممتاز شاعرہ اور ادیبہ تھیں
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets