aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
نام محمد نظیر الدین صدیقی اور تخلص نظیر تھا۔ ۷؍نومبر ۱۹۳۰ء کو سرائے ساہو، ضلع چھپرا(بہار) میں پیدا ہوئے۔۱۹۵۳ء میں ڈھاکہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی میں ۱۹۷۶ء میں ایم اے کیا۔ڈھاکا میں مختلف کالجوں میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔۱۹۹۰ء میں بیجنگ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ مقرر ہوئے۔ نظیر صدیقی نے اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی مضامین اور ریویو اورکالم لکھے۔ انھوں نے انشائیے اور شخصی خاکے بھی لکھے۔ تنقید نگاری ان کا بنیادی ذریعہ اظہار تھا۔وہ اردو کے ایک بہترین نثر نگار تھے۔۱۲؍اپریل ۲۰۰۱ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔انھوں نے مختلف موضوعات پر اردو اور انگریزی میں ۲۰ سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:’شہرت کی خاطر‘(انشائیے)، ’تأثرات وتعصبات‘، ’میرے خیال میں‘، ’ادبی جائزے‘، ’تفہیم وتعبیر‘، ’اردو ادب کے مغربی دریچے‘، ’ڈاکٹر عندلیب شادانی۔ایک مطالعہ‘(تنقیدی مضامین)، ’جان پہچان‘(شخصی خاکے)، ’حسرت اظہار‘(مجموعہ کلام)، ’جدید اردو غزل۔ایک مطالعہ‘، ’اقبال اینڈ رادھا کرشن‘(انگریزی)، ’گزرگاہ خیال‘، ’اعتراف‘(جاپانی کتاب کا ترجمہ)، اس کتاب پر اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:248
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets