aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ڈاکٹر نذیر احمد،فرحت اللہ بیگ کے استاد تھے۔ یہ خاکہ مولوی عبد الحق صاحب کے اصرار پر ۱۹۲۷ میں لکھا گیا تھا۔تنقید نگاروں نے اسے اردو کا پہلا مکمل خاکہ کہا ہے۔اس خاکے میں فرحت اللہ بیگ کی کردار نگاری،مرقع نگاری اور ظرافت اپنے عروج پر ہے۔اس کتاب کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ ڈاکٹر نذیر احمد پر یہ خاکہ فرحت اللہ بیگ کی چشم دید اوربراہِ راست معلومات پر مبنی ہے،اور اس کے ذریعے زمانے کے احوال اورزبان کا پتا چلتا ہے۔ اس خاکہ میں فرحت اللہ بیگ نے نذیراحمد کی دلچسپ شخصیت کا اس طرح نقشہ کھینچا ہے کہ ممدوح کا حلیہ،چال ڈھال،کراروگفتار،کھاناپینا،بات چیت،نشست و برخاست،علم سے وابستگی،ان کےکاروبارغرض ان کی ہر ادا، ہر حرکت لفظوں میں سمودی۔اس خاکے کے مطالعےسےڈپٹی نذیراحمدخود چلتے پھرتےنظرآتےہیں۔خاکےکااسلوب مزاحیہ ہے۔بامحاورہ زبان،نپےتلے جملے، ضرب الامثال کےساتھ ظرافت کی آمیزش،کہاوتوں کے برمحل استعمال نے اس خاکےکومزیدتابناک کیا ہے۔
ہمارے مزاح نگاروں میں مرزا فرحت اللہ بیگ کو بہت مقبولیت حاصل ہے۔ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں اور ان خاکوں کو ہر دل عزیز بنانے میں مرزا کی فطری ظرافت کو بہت دخل ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ تنقید، افسانہ، سوانح، سیرت، معاشرت و اخلاق کی طرف انہوں نے توجہ کی لیکن ان کی اصل شہرت کا مدار ظرافت نگاری پر ہے۔
وہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں ترکستان سے آئے اور دہلی کو اپنا وطن بنایا۔ یہاں 1884ء میں مرزا کی ولادت ہوئی۔ تعلیم بھی یہیں ہوئی۔ کالج کی تعلیم کے دوران مولوی نذیر احمد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے نہ صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان کی شخصیت کا گہرا اثر بھی قبول کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حیدرآباد گئے۔ وہاں مختلف عہدوں پر فائز ہوئے 1947ء میں وفات پائی۔
ان کی تصنیف ’’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مولوی نذیر احمد کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا ور بہت برسوں دیکھا تھا۔ ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں ان کی ہوبہو تصویر اتاری ہے۔ اس خاکے نے ان کو لازوال شہرت عطا کی۔ یہ خاکہ مولوی وحید الدین سلیم کو ایسا پسند آیا کہ انہوں نے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا نے اس فرمائش کو پورا کردیا اور اس خاکے کو ’’ایک وصیت کی تعمیل میں‘‘ نام دیا۔ انہوں نے بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مضامین فرحت کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری بھی کی لیکن یہ ان کا اصل میدان نہیں۔
دہلی کی ٹکسالی زبان پر انہیں بڑی قدرت حاصل ہے اور شوخی ان کی تحریر کا خاصہ ہے۔ ان کے مضامین پڑھ کر ہم ہنستے نہیں، قہقہہ نہیں لگاتے بس ایک ذہنی فرحت حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ کسی موضوع یا کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اس جزئیات نگاری سے قاری کو بہت لطف ولذت حاصل ہوتی ہے۔
مرزا فرحت اللہ بیگ اصلاً مزاح نگار ہیں۔ ان کی تحریروں میں طنز کم ہے اور جہاں ہے وہاں شدت نہیں بس ہلکی ہلکی چوٹیں ہیں جن سے کہیں بھی زہرناکی پیدا نہیں ہوتی۔ ان کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ فلسفیانہ گہرائی اور سنجیدگی سے حتی الامکان اپنا دامن بچاتے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قاری زیادہ سے زیادہ محظوظ ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets