aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو کی خود مختاری کا نقیب
’’ہرلفظ جو اردو میں مشہور ہو گیا، عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو یا سریانی، پنجابی ہو یا پوربی ازروئے اصل غلط ہو یا صحیح وہ لفظ اردوکا لفظ ہے۔ اگراصل کے مطابق مستعمل ہے تو بھی صحیح ہے اور خلاف اصل مستعمل ہے تو بھی صحیح ہے اس کی صحت و غلطی اردو کے استعمال پر موقوف ہے کیونکہ جو کچھ خلاف اردو ہے غلط ہے گو اصل میں وہ صحیح ہواور جو کچھ موافق اردوہے صحیح ہے گواصل میں صحت نہ رکھتا ہو۔‘‘ انشاءللہ خاں
انشاء اردو کے دوسرے شاعروں کی طرح محض اک شاعر نہیں بلکہ اردو زبان کے ارتقائی سفر میں اک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کو قدرت نے ایسی صلاحیتون سے نوازا تھا کہ بدقسمتی سے وہ ان کو سنبھال نہیں سکے۔ محمد حسین آزاد نے ان کو اردو کا امیر خسرو کہا جبکہ ان کے بارے میں بیتاب کا یہ قول بھی مشہور ہے کہ" انشاء کے فضل و کمال کو ان کی شاعری نے کھویا اور ان کی شاعری کو سعادت علی خاں کی مصاحبت نے ڈبویا۔" اس میں شک نہیں کہ انشاء اپنے مزاج کی سیمابیت اور غیر سنجیدگی کی بناء پر اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح بروے کار نہیں لا سکے اس کے باوجود شاعری کے حوالہ سے کم اور زبان کے حوالہ سے زیادہ، انھوں نے زبان و ادب کی جو خدمت انجام دی اس کی کوئی مثال اردو میں نہیں ملتی۔ شاعری میں طرح طرح کے لسانی تجربات کے ساتھ انکا سب سے بڑا کارنامہ کسی ہندوستانی کی لکھی ہوئی اردو گرامر کی اولین کتاب "دریائے لطافت" ہے جو قواعد کی عام کتابوں کی طرح خشک اور بے مزا نہ ہو کر کسی ناول کی طرح پر لطف ہے جس میں مختلف کردار اپنی اپنی بولیاں بولتے سنائی دیتے ہیں۔ ان کی دوسری اہم کتاب "رانی کیتکی کی کہانی" ہے جس میں عربی فارسی کا ایک بھی لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ اگر انشاء کے ادبی رویہ کو ایک جملہ میں بیان کرنا ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ انشاء کسی بھی روایت یا عصری روش کا اتباع اپنے لئے حرام سمجھتے تھے اور ہمیشہ کچھ ایسا کرنے کی دھن میں رہتے تھے جو پہلے کبھی کسی نے نہ کیا ہو۔
انھوں نے اردو میں "سلک گوہر" لکھی جس میں ایک بھی نقطہ نہیں ہے۔ انھوں نے ایسا قصیدہ لکھا جس میں پورے کے پورے مصرعے عربی، فارسی، ترکی، پشتو، پنجابی، انگریزی، فرانسیسی، پوربی اور اس زمانہ کی تمام قابل ذکر زبانوں میں ہیں۔ ایسی سنگلاخ زمینوں میں غزلیں لکھیں کہ حریف منہ چھپاتےپھرے۔ ایسے شعر کہے جن کو معنی کے اختلاف کے بغیر، اردو کے علاوہ، محض نقطوں کی تبدیلی کے بعد عربی فارسی اور ہندی میں پڑھا جا سکتا ہے یا ایسے شعر جن کا ایک مصرع غیر منقوط اور دوسرے مصرعے کے تمام الفاظ منقوط ہیں۔ اپنے اشعار میں صنعتوں کے انبار لگا دینا انشاء کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اگر کوئی انشاء سے دل میں اتر جانے والے شعر سننا چاہتا ہے تو اسے جان لینا چاہئے کہ یہ دربار مختلف ہے۔ یہاں ریوڑیوں اور موتی چور کے لڈوؤں کا نہیں تیز مرچ والی بارہ مصلاحہ کی چاٹ کا پرساد تقسیم ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھی منہ کا مزا بد لنے کے لئے۔ "نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی **تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں" اور " نزاکت اس گل رعنا کی کیا کہوں انشاء **نسیم صبح جو چھو جائے رنگ ہو میلا" جیسے اشعار بھی مل جاتے ہیں۔
انشاء 1752ء کو مرشدآباد میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب بہت سے شاعروں کی روحیں زوال پذیر سلطنت دہلی سے دلبرداشتہ ہو کر مرشدآباد یا عظیم آباد میں جسد خاکی اختیار کرتی تھیں۔ یہ خاندان نجف اشرف سے اور بعض دوسری روایات کے مطابق سمرقند سے ہجرت کرکے دہلی میں آباد ہوا تھا اور طبابت میں اپنی غیرمعمولی صلاحیت کی بنا پر دربار شاہی سے منسلک تھا۔ انشاء کے والد سید ماشاءللہ دہلی کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوے مرشدآباد چلے گئے تھے جہاں ان کی خوب قدرومنزلت ہوئی۔ لیکن جب بنگال کے حالات بھی خراب ہوئے تو شجاع الدولہ کے پاس فیض آباد چلے گئے۔ انشاء اپنی کم عمری کے باوجود شجاع الدولہ کےمصاحبوں میں شامل ہو گئے تھے۔ شجاع الدولہ کی وفات کےبعد وہ نجف خان کے لشکر میں شامل ہوکر بندیل کھنڈ میں جاٹوں کے خلاف مہم میں شریک رہے۔ اس مہم کے خاتمہ کے بعد وہ نجف خان کے ساتھ دہلی آ گئے۔ اجڑی پجڑی دہلی میں شاہ عالم "از دلّی تا پالم" کی مختصر سی بساط بچھائے بیٹھے تھے۔ انشاء کے والد نے بیٹے کی تعلیم و ترنیت پر خوب توجہ دی تھی اور بے پناہ ذہانت اور علم و فضل کے حوالہ سے دہلی میں انشاء کا کوئی ثانی نہیں تھا وہ ہفت زبان اور مختلف علوم و فنون سے واقف تھے، قلعہ سے اپنے خاندان کے قدیم روابط کی بدولت انشاء کو دربار تک رسائی ملی اور وہ اپنی طراری، اور بھانڈ پن کی حد تک پہنچی ہوئی مسخرگی کی بدولت شاہ عالم کی آنکھ کا تارہ بن گئے کہ ان کے بغیر بادشاہ کو چین نہیں آتا تھا۔ اسے قسمت کی ستم ظریفی ہی کہیں گے کہ انشاء جیسے ذہین اور باصلاحیت شخص کو اپنے علم و فضل کا، اکبر جیسا، قدردان نہیں ملا جو ابوالفضل اور فیضی کی طرح ان کی اصل صلاحیتوں کی قدر کرتا۔ ان کو اپنی بقاء کے لئے ایک مسخرے مصاحب کا کردار ادا کرنا پڑا جس نے بعد میں، ضرورت کی جگہ، عادت کی شکل اختیار کرلی۔ جب انشاء دہلی پہنچے، بڑے بڑے شاعر، سودا، میر، جرات، سوز وغیرہ دہلی کو چھوڑ کر عیش و نشاط کے نو دریافت جزیرے لکھنؤ کا رخ کر چکے تھے اور چھٹ بھیّے بزعم خود خاتم الشعراء بنے ہوئے تھے۔ یہ لوگ انشاء کو نووارد لونڈا سمجھتے تھے اور انہیں خاطر میں نہیں لاتے تھے ایسے میں لازم تھا کہ انشاء ان کو ان کی اوقات بتائیں۔ اور یہیں سے انشاء کی ادبی معرکہ آرائیوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ انشاء کو اپنے سامنے سر اٹھانے والے کسی بھی شخص کو دو چار زور دارپٹخنیاں دئے بغیر چین نہیں آیا۔
دہلی میں انشاء کا پپہلا معرکہ مرزا عظیم بیگ سے ہوا۔ ان کی علمی لیاقت بہت معمولی تھی سودا کے شاگرد ہونے کے مدعی اور خود کو صائب کا ہم مرتبہ سمجھتے تھے۔ انشاء کی روش عام سے ہٹی ہوئی شاعری کے نکتہ چینوں میں یہ پیش پیش تھے اور اپنے مقطعوں میں سودا پر چوٹیں کرتے تھے۔ ایک دن وہ سید انشاء سے ملنے آئے اور اپنی ایک غزل سنائی جو بحر رجز میں تھی لیکن کم علمی کے سبب اس کے کچھ شعر بحر رمل میں چلے گئے تھے۔ انشاء بھی موجود تھے۔ انھوں نے طے کیا کہ حضرت کو مزا چکھانا چاہئے۔ غزل کی بہت تعریف کی مکرر پڑھوایا اور اصرار کیا کہ اس غزل کو وہ مشاعرہ میں ضرور پڑھیں۔ عظیم بیگ ان کے پھندے میں آ گئے۔ اور جب انھوں نے مشاعرہ میں غزل پڑھی تو انشاء نے بھرے مشاعرہ میں ان سے غزل کی تقطیع کی فرمائش کر دی۔ مشاعرہ میں سب کو سانپ سونگھ گیا۔ انشاء یہیں نہیں رکے بلکہ دوسروں کی عبرت کے لئے اک مخمس بھی سنا دیا۔ "گر تو مشاعرہ میں صبا آج کل چلے۔ کہیو عظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل چلے۔ اتنا بھی اپنی حد سے نہ باہر نکل چلے۔ پڑھنے کو شب جو یار غزل در غزل چلے۔ بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے۔" عظیم بیگ اپنے زخم چاٹتے ہوئے مشاعرہ سے رخصت ہوئے اور اپنی جھینپ مٹانے کے لئے جوابی مخمس لکھا جس میں انشاء کو جی بھر کے برا بھلا کہا اور دعوی کیا کہ بحر کی تبدیلی نادانستہ نہیں تھی بلکہ شعوری تھی جس کا رمز ان کے مطابق کل کے چھوکرے نہیں سمجھ سکتے۔ "موزونی و معانی میں پایا نہ تم نے فرق۔ تبدیل بحر سے ہوئے بحر خوشی میں غرق۔ روشن ہے مثل مہر یہ از غرب تا بہ شرق۔ شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق۔ وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے" ( آخری مصرع ماقبل کے مصرع میں تحریف کے ساتھ شعر "گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں۔ وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے" کی شکل میں مشہور ہو گیا)۔ اس کے بعد جنگ کی صفیں آراستہ ہو گئیں۔ انشاء کے کہنے پر بادشاہ نے مشاعرہ میں اپنی غزل بھیجنا بند کر دی۔ اگلی بار جو مشاعرہ ہوا وہ ایک خطرناک معرکہ تھا آزاد کے بقول حریفوں نے تیغ و تفنگ اور اسلحہ جنگ سنبھالے تھے، بھائی بندھو اور دوستوں کو ساتھ لیا تھا اور بزرگان دین کی نیازیں مانگ مانگ کر مشاعرہ میں گئے تھے۔ انشاء مخالفوں کو بھڑکانے کے لئے اکثر فخریہ اشعار کہتے مخالفوں کے کلام کو اپنے کلام کے سامنے ایسا گردانتے جیسے کلام الہی کے سامنے مسیلمہ کذاب کی "الفیل مالفیل"۔ اگلے مشاعرہ میں بھی وہ اپنی فخریہ غزل "اک طفل دبستاں ہے فلاطوں مرے آگے۔ کیا منہ ہے ارسطوجو کرے چوں مرے آگے" لے کر گئے۔ اس معرکہ میں جیت انشاء کی ضرور ہوئی لیکن ان کی مخالفت بہت بڑھ گئی۔ اس زمانہ میں ان کے قریبی دوستوں میں سعادت یار خان رنگین شامل تھے جنھوں نے آخری وقت تک دوستی نبھائی۔ دہلی کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے شہر میں لوٹ مار کا دور دورہ تھا۔ دربار سے بھی ان کا دل اچاٹ ہو گیا۔ لکھنؤ میں حاتم ثانی آصف الدولہ کی سخاوت کی دھوم تھی۔ قسمت آزمائی کےلئے لکھنؤ کی راہ لی۔ آتےہی وہاں کے مشاعروں میں دھوم مچائی کچھ دن فیض آباد کےاپنے کرم فرما الماس خان کے پاس رہے پھر شاہ عالم کے بیٹے سلیمان شکوہ کے ملازم ہو گئے۔ سلیمان شکوہ، انشاء سے اصلاح لینے لگے۔ مصحفی پہلے سے لکھنؤ میں موجود تھے لیکن امراء تک ان کی رسائی نہیں تھی۔ انشاء نے سفارش کر کے ان کو سلیمان شکوہ کے متوسلین میں شامل کرا دیا۔ ان دنوں لکھنؤ میں شاعری کی اک نئی بساط بچھ رہی تھی جسے بعد میں دبستان لکھنؤ کا نام دیا گیا۔ انشاءکے علاوہ، جرات، رنگین، راغب وغیرہ ایک سےبڑھ کر ایک تماشے دکھا رہے تھے۔ سنگلاخ زمینوں میں استادی دکھانے اور چوما چاٹی کے مضامین کو ابتذال کے دہانے تک لے جانے کی اک ہوڑ لگی تھی۔
آصف الدولہ کے بعد جب سعادت علی خان نے حکومت سنبھالی تو آصف الدولہ جیسی داد و دہش ختم ہو گئی تھی وہ بخیل مشہور تھے۔ اور مزاجاً سنجیدہ تھے۔ سعادت علی خان کے دربار میں انشاء للہ بہت دنوں بعد کسی طرح پہنچ تو گئے لیکن ان کی کوئی عزت نہیں تھی۔ ان کا رول بس دل بہلانے والے اک مسخرے کا سا تھا۔ نواب رات کے وقت عالم سرور میں دریا کی سیر کر رہے ہیں۔ دفعتاً دریا کے کنارے اک عمارت نظر آتی ہے جس کا تاریخی نام "حویلی علی نقی خاں بہادر کی" ہے انشاءسے فرمائش ہوتی ہے اس مادۂ تاریخ کو منظوم کریں اور انشاء تعمیل کرتے ہیں "نہ عربی نہ فارسی نہ ترکی۔ نہ سم کی نہ تال کی نہ سُر کی۔ یہ تاریخ کہی ہے کسی لُر کی۔ حویلی علی نقی خان بہادر کی۔" نواب کو جب کسی کی پگڑی اچھالنی ہوتی انشاء کو اس کے پیچھے لگا دیتے۔ آزاد نے انشاء کی زبانی اک واقعہ بیان کیا ہے، "کیا کہوں لوگ جانتے ہیں کہ میں شاعری کر کے نوکری بجا لاتا ہوں مگر خود نہیں جانتا کہ کیا کر رہا ہوں۔ دیکھو صبح کا گیا شام کوآیا تھا کمر کھول رہا تھا کہ چوبدار آیا کہ جناب عالی پھر یاد فرماتے ہیں گیا تو دیکھا کہ کوٹھے پرفرش ہے، چاندنی رات ہے، پہئے دار چھپرکھٹ میں آپ بیٹھے ہیں پھولوں کا گہنا سامنے دھرا ہے، ایک گجرا ہاتھ میں ہے اسے اچھالتے ہیں اورپاؤں کے اشارے سے چھپرکھٹ آگے بڑھتا جاتا ہے۔ میں نے سلام کیا حکم ہوا انشاء کوئی شعر تو پڑھو۔ اب فرمائے ایسی حالت میں کہ اپنا ہی قافیہ تنگ ہو، شعر کیا خاک یاد آئے۔ خیر اس وقت یہی سمجھ میں آیا وہیں کہہ کر پڑھ دیا ’’لگا چھپرکھٹ میں چار پہئے اچھالا تو نے جولے کے گجرا۔ تو موج دریائے چاندنی میں وہ ایسا چلتا تھا جیسے بجرا۔ یہی مطلع سن کر خوش ہوئے۔ بتلائے شاعری اسے کہتے ہیں؟‘‘
ان باتوں کے باوجود انشاء کے اہم ادبی کارنامے اسی زمانہ میں وجود میں آئے جب وہ سعادت علی خان کی سرکار سے وابستہ تھے "دریائے لطافت" کی تجویز نواب نے ہی پیش کی تھی۔ انشاء کی آخری عمر بڑی بیکسی میں گزری ہنسی ہنسی میں کہی گئی انشاء کی کچھ باتوں سے نواب کے دل میں گرہ پڑ گئی اور وہ معتوب ہو گئے۔ اور زندگی کے باقی دن مفلسی کسمپرسی اور بیچارگی میں گزارے۔
انشاء کی شاعری مسلسل تجربات سے عبارت ہے اس لئے اس میں کوئی مخصوص رنگ ابھر کر سامنے نہیں آتا۔ ان کی تمام شاعری میں جو صفت مشترک ہے وہ یہ کہ ان کا کلام متوجہ اور محظوظ کرتا ہے۔ ان کی شاعری کی اہمیت تاریخی اور لسانی ہے۔ عربی فارسی کا ایک بھی لفظ استعمال کئے بغیر اک داستان لکھ کر انھوں نے اس دعوے کی عملی تردید کر دی کہ اردو کھڑی بولی میں عربی فارسی کے الفاط کی آمیزش سے پیدا ہونے والی زبان ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ اردو کے پہلے ادیب ہیں جس نے اردو کی خود مختاری کا اعلان کیا۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free