aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پروفیسر احتشام حسین کا شمار اردو کے نامور نقادوں میں ہوتا ہے، خاص طور پر ترقی پسند تنقید کا ذکر ان کے نام کے بغیر نامکمل ہے۔ لیکن وہ صرف نقاد ہی نہیں تھے، بلکہ استاد، افسانہ نگار، سفر نامہ نگار، ڈرامہ نگار اور شاعر بھی تھے۔ ان کے نامور شاگر د بر صغیر ہند و پاک میں پھیلے ہوئے ہیں، جنھوں نے ہر جگہ احتشام حسین کے نام کو سر بلند رکھا۔ سید احتشام حسین کی پیدائش اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ ماہل میں 21 اپریل سنہ 1912کو ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنی بستی کے ہی اسکول میں پائی اور ہائی اسکول اعظم گڑھ سے پاس کیا۔ پھر انٹر میڈیٹ، بی اے اور ایم اے الہ آباد سے کیا۔ عملی زندگی کی شروعات لکھنئو یونیورسٹی سے کی۔ جہاں وہ شعبہٴ اردو میں لکچرر ہوئے اور بعد میں الہ آباد یونیورسٹی میں پروفیسر ہوئے۔انہوں نے ایک درجن سے زائد کتابوں کی تصنیف، ترتیب اور تدوین کی۔ زیر نظر کتاب فداء المصطفی فدوی کی لکھی ہوئی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں احتشام حسین کی زندگی ، ان کی شخصیت، کارنامے ،تنقید نگاری، تبصرہ نگاری ، علم لسانیات،شاعری، ،افسانہ نگاری ، ڈراما نگاری اور مکتوب نگاری پر جامع مواد موجود ہے، جس کی وجہ سے یہ کتاب احتشام حسین کے حوالے سے معیاری اور ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔
فداء المصطفیٰ فدوی نے جب 1972ء میں شاعری کی باقاعدہ ابتدا کی تو انہوں نے جدید لہجے میں ہی شعر کہنا شروع کیا۔ گو کہ انہوں نے قدیم اور روایتی شاعری کا بھی خوب مطالعہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ روایت سے انحراف کے قائل نہیں ہیں۔ اپنے اس نقطۂ نظر کو ایک شعر میں یوں پیش کرتے ہیں۔
فکر ہزار شیوہ سے فن کو فروغ ہے
بے وجہ اختلاف قدیم و جدید ہے
ان کے پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ ’’احتشام حسین: حیات، شخصیت اور کارنامے‘‘ کتابی شکل میں 1982ء میں منظر عام پر آیا۔ ڈاکٹر فدوی نے زیادہ تر غزلیں ہی کہی ہیں ان کے یہاں دردوکرب اور گہرے مشاہدے کی عکاسی نظر آتی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets