aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پنڈت رتن ناتھ سرشار کا نام اردو کلاسک ادب میں ایک خاص انفرادیت رکھتا ہے۔ زیر نظر کتاب ان کا شاہکار ناول ہے۔ یہ ناول اردو ادب میں بہت ہی بلند مقام رکھتا ہے۔ فسانۂ آزاد اودہ اخبار میں 1878ء سے 1879ء کے درمیان قسط وار شائع ہوا اور کتابی شکل میں پہلی مرتبہ 1880 میں منظر عام پر آیا۔ اس کی چارضخیم جلدیں ہیں جو سواتین ہزار سے زائد صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ سرشار چونکہ بچپن سے لکھنوی زندگی جیتے رہے تھے اس لیے ان کا شعور بہت ہی پختہ اور ہمہ گیر ہے۔ فسانہ آزاد میں انسانی زندگی کی پوری چہل پہل اور ہماہمی ہے۔ مصاحب، مولوی، پنڈت، شاعر، بانکے، مغنّی، جیوتشی، مانجھے، نبوٹیئے، بہروپیئے، افیمچی، چانڈوباز، بھٹیارنیں ، ساقنیں ، لونڈیاں ، فقیر، داروغہ، شاہ جی، الغرض معاشرہ کے سبھی افراد یہاں موجود ہیں۔ جو اس عہد کی تہذیب کو بے کم و کاست اجاگر کرتے ہیں۔ان کی اس تصنیف نے اردو ادب کو ایک نئی زبان، نیا اسلوب وانداز اور نئے طرزِ فکر سے آشنا کیا۔ زبان وبیان کی چاشنی ،نئے نئے الفاظ و محاورات اور عمدہ مکالمات و اسلوب کے ذریعہ سرشار نے لکھنؤ کی زوال آمادہ تہذیب کی ایسی منظر کشی کی ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی اور اس کے ادب میں بلند مقام ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ نہ صرف یہ ا س کی ادبی اہمیت کا اعتراف کیا ہے ،بلکہ آج تک ادبی دانش گاہوں کے نصاب کا حصہ ہے۔ اکثر ناقدین نے اس شاہکار کو ناول اور داستان کے بیچ کی کڑی بتلایا ہے۔ اس شاہکار کے مزاحیہ کردار خوجی کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ زیر نطر فسانہ آزاد کی جلد سوم کا حصہ دوم ہے۔ جس کو ترقی اردو بیورو نئی دہلی نے شائع کیا۔
اردو کے ممتاز ادیبوں میں ایک اہم نام پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ہے۔ یہ 1846ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ یہ کشمیری پنڈت تھے۔ ان کے والد کا انتقال سرشار کے بچپن میں ہی ہوگیا اور ان کی ساری پرورش و پرداخت والدہ کرتی رہیں۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد کالج میں داخل ہوئے لیکن کوئی ڈگری حاصل نہ ہوسکی اور کالج چھوڑنا پڑا۔ پھرضلع کھیلری میں ایک اسکول میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ لکھنے پڑھنے کا شوق بے انتہا تھا۔ کتابوں سے وابستگی ہمیشہ رہی نتیجے میں وہ ہرحال میں اپنے وقت کے مسائل سے رابطہ قائم کئے رہے۔ ان کے اولین مضامین ’’اودھ پنج‘‘ اور ’’مراسلۂ کشمیر‘‘ میں شائع ہوئے۔ پھر کئی رسالوں اور اخباروں سے ان کا تعلق قائم ہوا مثلاً ’’اودھ اخبار‘‘، ’’ریاض الاخبار‘‘، ’’مراعات الہند‘‘ وغیرہ۔ جب منشی نول کشور نے ’’اودھ اخبار‘‘ جاری کیا تو وہ اس کے ایڈیٹر ہوئے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ان کی مشہور تصنیف ’’فسانۂ آزادی‘‘ کی قسطیں اسی میں شائع ہوتی رہیں۔ پھر ’’اودھ اخبار‘‘ سے الگ ہوئے اور مہاراجہ کرشن پرساد کی دعوت پر حیدرآباد چلے آئے اور ’’دبدبۂ آصفی‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ ان کا انتقال 1895میں ہوا۔ آخر وقت میں وہ حیدرآباد میں تھے۔
رتن ناتھ سرشار کو مسلمانوں کی تہذیب، معاشرت، تمدن، اخلاق، تیوروغیرہ سے بڑا لگاؤ تھا۔ ان کے ملنے جلنے والوں کی کثیر تعداد مسلمانوں ہی کی تھی۔ ہندوومسلم معاشرت کے پیچ و خم کو بخوبی سمجھتے تھے۔ لیکن مزاج متلون تھا۔ آزاد منش ہونے کی وجہ سے زندگی میں جینے کی حد قائم نہیں رکھیں۔ شراب و کباب کے عادی ہوگئے اور انتہائی لاپرواہ اور بے پرواہ زندگی گزاری۔ یہ اور بات ہے کہ ان حالات میں بھی لکھنے لکھانے سے پرہیز نہیں کیا۔ لیکن جولانی طبع یکسو ہونے نہیں دیتی نتیجے میں وہ قسطیں جو اخبار میں چھپتی رہیں ان کے لئے بھی کوئی ایسا التزام نہیں کیا کہ ترتیب وربط شروع سے آخر تک قائم رہے۔ اخبار کے مطالبے پر قسطیں لکھتے۔ اس طرح ’’فسانہ آزاد‘‘ مکمل ہوا۔
سرشار جو کچھ تھے وہ ان کی شاہکار میں پورا کا پورا Reflect ہوتا ہے۔ جس طرح وہ خود حاضرجواب تھے، بذلہ سنجی کے پیکر تھے اسی طرح ان کے بعض کردار سامنے آئے ہیں۔ لیکن ایسے تمام معاملات میں معاشرے کے کیف و کم کو وہ فراموش نہیں کرتے۔ نتیجے میں ایک زوال آمادہ تہذیب ان کے ’’فسانہ آزاد‘‘ میں منعکس ہوگئی ہے۔ لکھنؤ جن حالات سے گزر رہا تھا اس کی اگر تصویر دیکھنی ہو تو ان کی یہ تصنیف کافی ہے۔ اس کے دو کردار آزاد اور خوجی لکھنؤ کے معاشرے کو مکمل طور پر Reflect کرتے ہیں۔
سرشار کو انگریزی ناولوں سے ایک ربط خاص تھا۔ ان کی نگاہ میں سروینٹس کی ’’ڈان کواکزوٹ‘‘ ضرور ہوگی، اس لئے کہ اس کے دوکردار لازماً ’’فسانہ آزاد‘‘ کے بھی کردار بنتے ہیں۔ میری مراد کردار ڈان کوأکزوٹ نائٹ سے ہے اور دوسرے کردار سانکوپازا سے۔ اس زمانے میں نائٹ (Knight) کی اپنی ایک حیثیت تھی اور وہ حیثیت بڑی مثال ہوتی تھی۔ ڈان کوأکزوٹ ایسی مثالیت کی نفی پیش کرتا ہے اسی طرح سانکوپازا جو ملازم ہے، حالات کے نکتہ چیں کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہ دونوں صورتیں ’’فسانہ آزاد‘‘ میں پائی جاتی ہیں ایک طرف خوجی ہے جو Knight کی ایک صورت ہے۔ دوسری طرف آزاد ہے۔ ان دونوں کردار کے ذریعے سرشار نے حالات حاضرہ پر جس طرح ضرب لگائی ہے اور جس طرح تصویر کشی کی ہے وہ دیدنی ہے۔ اس سلسلے میں وزیر آغا لکھتے ہیں کہ ’’خوجی قدیم کی پیداوار ہی نہیں اس کی تحریف بھی ہے۔ یہ قدیم سرشار کے زمانے کے لکھنؤ میں اپنی ظاہری آب و تاب کے ساتھ زندہ تھا۔ لباس، رسوم، گفتگو، رہن سہن کے آداب اور ان سے بھی زیادہ ایک مخصوص زاویۂ نگاہ۔ ان سب باتوں پر لکھنوی تہذیب کے اثرات ثبت تھے۔ یہ لکھنوی تہذیب اس المیے سے فرار اختیار کرنے کی ایک کاوش تھی جس نے مغل سلطنت کے زوال اور اس سے پیدا ہونے والی طوائف الملوکی کی فضا سے جنم لیا تھا۔ اس تہذیب کی داغ بیل اس وقت پڑی جب اودھ کے حکمرانوں نے ’حقیقت‘ کا سامنا نہ کرسکنے کے باعث اپنی آنکھیں میچ لیں اور ’بابربہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘ کے تحت خود کو ماضی اور مستقبل دونوں سے منقطع کر کے حال کے لمحے پر مرتکز کر لیا۔ جب آئندہ کے خواب نظروں سے اوجھل ہوں اور ماضی کے عروج کی داستان بھی ذہن سے محو ہوجائے تو انسانی اعمال میں انجماد اور قویٰ میں اضمحلال کا نمودار ہونا ناگزیر ہے۔ پھر جب تخیل کمزور اور حسیات برانگیخت ہوں تو گوشت پوست کی زندگی نسبتاً زیادہ مرکز نگاہ بنتی ہے۔ لکھنوی تہذیب دراصل مزاجاً ایک ارضی تہذیب تھی جس میں جسم کی تسکین کا معاملہ فلسفہ حیات کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ اس قسم کے ارضی معاشرے کا مذہبی رسوم میں، زبان اور محاورے میں، عشقیہ شہوت پرستی میں اور جمالیاتی ذوق یا پست قسم کی لذت پرستی میں ڈھل جاتا ہے۔‘‘
یہ وضاحت بھی درست ہے کہ ایسے اظہار میں سرشار نے سروینٹس کے ناولوں کے دونوں کردارکو یوں تبدیل کردیا کہ ڈان کوأکزوٹ کا ملازم ’’فسانہ آزاد‘‘ کے ہیروآزاد میں سمٹ آیا جبکہ خود ڈان کوأکزوٹ خوجی میں مبدل ہوگیا۔
سرشار کا کمال یہ ہے کہ وہ مذہبی امور کو بھی نظر میں رکھتے ہیں۔ دراصل معاشرے کی عکاسی کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ بیان میں شدت پیدا کی جائے اور یہ شدت اس وقت زیادہ مؤثر ہوتی ہے جب مبالغہ اور اغراق سے مدد لی جائے، چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بلند کردیا جائے اور بلندیوں کو پست بنا دیا جائے۔ لازماً سرشار نے ایسا ہی کیا، نتیجے میں لکھنؤ کا معاشرہ دوسرے کرداروں کے علاوہ ان دونوں کردار میں سمٹ آیا۔ یہ بڑا ادبی کمال ہے اور اردو فکشن میں بہت کم ایسے خوش قسمت فنکار ہیں جن کے کردار زندہ اور تابندہ ہیں۔ سرشار کے یہ دونوں کردار مثالی بن گئے ہیں اور حالات کی عکاسی کی بھرپور علامت۔ یہ الگ بحث ہے کہ سرشار نے سروینٹس سے کتنا لیا اور کتنا خارج کیا۔ لیکن جو کچھ بھی لیا اسے نئے رنگ و آہنگ میں اور اس طرح ڈھالا کہ سب اپنا جواب خود بن گئے۔ اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیر آغا نے ایک پتے کی بات کہی ہے جو ہر طرح سے قابل لحاظ ہے:۔
’’قدیم اور اس کی علامت خوجی کو طنز کا نشانہ بنانے کا اقدام تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن خورشیدالاسلام کی یہ رائے محل نظر ہے کہ سرشار نے جدید اور اس کی علامت آزاد کو بھی طنز کا نشانہ بنایا۔ چنانچہ دیکھنا چاہئے کہ سرشار نے آزاد کو دیو قامت اور خوجی کو کوتاہ قد بنا کر کیوں پیش کیا۔ شعوری سطح پر تو شاید سرشار کے سامنے کوئی مقصد نہ ہو، لیکن قطعاً غیر شعوری طور پر انہوں نے جدید سے اپنی ہم آہنگی اور قدیم سے اپنی نفرت کو اجاگر کرنے کے لئے ان دونوں کرداروں سے مدد لی ہے۔ جدید سے ان کی جذباتی وابستگی اس طور پر عیاں ہے کہ انہوں نے آزاد کی صفات میں مبالغہ آرائی سے کام لیا اور قدیم سے ان کی نفرت اس بات سے مترشح ہے کہ اس ضمن میں بھی انہوں نے غلو سے کام لیتے ہوئے خوجی کو عام انسانی سطح سے بہت پست مقام عطا کیا۔ اس تفویض سے سرشار کے ہاں اصلاح پسندی کا رجحان بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کی اصلاح کے لیے نئے زمانے کے ساتھ چلنا اور پرانے زمانے سے منقطع ہونا چاہتے تھے۔ ممکن ہے ان کے اس رویے پر سرسید احمد خاں کی تحریک کے اثرات بھی ثبت ہوں، لیکن ایک تعلیم یافتہ، بالغ نظر اور حساس انسان کی حیثیت سے بھی ان کے اس خاص رویے کی وجوہ سمجھ میں آتی ہیں۔ علاوہ ازیں اصلاح پسندی کے سلسلے میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سرشار کی اپنی زندگی شراب نوشی اور بے اعتدالی کی نذر رہی اور قاعدۂ عام یہ ہے کہ جو شخص کسی بری عادت میں مبتلا یا برے ماحول میں گرفتار رہا ہو وہ چاہتا ہے کہ آنے والی نسلیں اس سے عبرت حاصل کریں اور اس اندھے کنویں میں نہ گریں جس میں خود گرگیا تھا۔ سرشار کی بیشتر تصانیف میں شراب نوشی اور دیگر قبیح رسوم اور عادات کے خلاف ان کی مہم اسی جذبے کی پیداوار ہے۔ چنانچہ خوجی اور آزاد کے سلسلے میں بھی اصلاح پسندی کا یہ جذبہ بار بار اپنی جھلک دکھاتا ہے۔‘‘
سرشار نے جو معاشرت کی تنقید کا اندازاختیار کیا اس میں تمسخر کا انداز نہیں ہے بلکہ ظرافت کی چاشنی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی سامنے آتا ہے وہ مزاح کے پیرایہ میں آتا ہے۔ مزاح نگار دراصل نشیب و فراز کو ہمہ وقت اپنے ذہن و دماغ میں منعکس کرتا رہتا ہے اور جہاں ناہمواری ہوتی ہے وہاں وہ مزاح کے انداز میں اس کی نشاندہی کردیتا ہے۔ لیکن جب مزاح میں شدت پیدا ہوتی ہے تو وہ طنز کا رخ اختیار کرلیتا ہے۔ سرشار کے یہاں یہ پہلو بہت کم پیدا ہوا ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ تر انہوں نے واقعات، سانحات اور کردار سے ناہمواریوں کی نشاندہی کے لئے مزاحیہ پیرایہ اظہار اپنانے میں رغبت محسوس کی اور طنز کا انداز کم سے کم اختیار کیا۔
سرشار کی دوسری تصانیف بھی قابل لحاظ ہیں مثلاً ’’شمس الضحیٰ‘‘، ’’جام سرشار‘‘، ’’اعمال نامۂ روس‘‘، ’’سیر کہسار‘‘، ’’کامنی‘‘، ’’الف لیلیٰ‘‘، ’’خدائی فوجدار‘‘ وغیرہ۔ ’’شمس الضحیٰ‘‘ دراصل جغرافیائی صورت سے بحث کرتی ہے اور یہ انگریزی سے ترجمہ ہے۔ ’’اعمال نامۂ روس‘‘ بھی ایک انگریزی سیاح کی انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے۔ ’’جام سرشار‘‘، ’’فسانہ آزاد‘‘ کی ضد کے طور پر سامنے آئی۔ اس کی سنجیدگی ہر چند کے سرشار کے مزاج سے لگّا نہیں کھاتی لیکن یہ سچ ہے کہ اس میں نواب کا کردار بڑی ہی چابکدستی سے پیش کیا گیا ہے۔ ’’سیرکہسار‘‘ دوجلدوں میں ہے لیکن ’’فسانہ آزاد‘‘ سے زبان و بیان کے معاملے میں کمتر درجے کی تصنیف ہے۔ ’’کامنی‘‘ میں ہندو خاندان کے رسم و رواج کی طرف توجہ کی گئی ہے۔ ’’الف لیلیٰ‘‘ فارسی قصہ الف لیلیٰ کا ترجمہ ہے اور ’’خدائی فوجدار‘‘ ڈان کوأکزوٹ کا ترجمہ ہے۔ سرشار تاریخ ادب اردو کا ایک بیحد ممتاز نام ہے اور جاوداں بھی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets