aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سعادت حسن منٹو کا شمار ایسے بلند پایہ فنکاروں میں ہوتا ہے جو اپنے وقت سے کہیں آگے دیکھنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔ آج منٹو کے افسانے ادبی منظر نامہ پر آتے تو کبھی معتوب نہ ٹھہرتے اور نہ ہی ان پر مقدمے چلتے۔ منٹو نے وقت سے پہلے اس انسان کو دیکھا جو ابھی تہذیب کی گود میں سویا ہوا تھا۔منٹو کی ادبی تخلیقات کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے دیکھی بھالی اور جانی پہچانی دنیا میں ہی ایک ایسی دنیا دریافت کی، جسے لوگ درخوراعتناء نہیں سمجھتے تھے،یہ کتاب تحقیق اور اطلاقی تنقید کا عمدہ نمونہ کہی جا سکتی ہے۔کتاب کے بنیادی طور پر چار ابواب ہیں۔ پہلا باب ”زندگی: ایک ٹیڑھی لکیر“ کے عنوان سے منٹو کی زندگی اور شخصیت کا احاطہ کرتا ہے اور دوسرا باب منٹو کی تصانیف کا اجمالی جائزہ ہے۔ یہ دونوں ابواب مکمل طور پر تحقیقی نوعیت کے ہیں،تیسر باب ”منٹو کے مختلف پہلو اور نظریہ“ کے عنوان سے منٹو کے افسانوں کا تنقیدی مطالعہ ہے۔ جس میں منٹو کے رجحانات، موضوعات اور تھیم کے حوالے سے افسانوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ چوتھا باب جو اس کتاب کا سب سے اہم باب ہے "تجزیات" کے عنوان سے ہے جس میں منٹو کے منتخب دس افسانوں کے تفصیلی اور جامع تجزیے کیے گئے ہیں۔ کسی نقاد نے پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں منٹو کے افسانوں کے ایسے بھرپور تجزیے پیش کیے ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets