aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
علامہ اقبال کا نام آتے ہی ہمارے ذہن و قلوب میں اول مرحلہ میں یہی آتا ہے کہ وہ ایک بڑے شاعر تھے ۔لیکن ان کی شخصیت کا یہ پہلو اسی وقت تک رہتا ہے جب تک ہم ان کی شاعر ی میں مکمل طور پر ڈوب نہیں جاتے ہیں۔ جیسے جیسے علامہ اقبال کے خیالا ت سے آگاہی حاصل ہوتی جاتی ہے قاری بلامبالغہ و غلو انہیں خود بخود مفکر ماننے لگتا ہے ۔ علامہ اقبال کے افکا ر اتنے وسیع ہیں کہ اب تک مختلف کتابیں ان پر آچکی ہیں اور مسلسل ریسرچ جاری ہے ۔ صرف زندگی کی افکار کی بات کریں تو انفرادی اور اجتماعی دونوں کا خیال رکھا ہے ، ان کے فلسفے میں انسا ن کیا ہے ؟ زندگی کیا ہے ؟ کیا انسان محض ایک حیوان ہے ؟انسان کے لیے کائنات کیا ہے ؟ اور کائنات کی اصل کیا ہے ان سب کو بہت ہی گہرائی سے علامہ نے پیش کیا ہے ۔اس کتاب کو فکر اقبال کی تدریجی تفہیم میں بنیادی کتاب کا درجہ حاصل ہے ۔ مصنف بیس ابواب میں ان کے افکار کو پیش کر تے ہیں ۔اس کے بعد کتاب کے آخری حصہ میں علامہ کے ساتوں انگریز ی خطبات کا خلاصہ بھی موجود ہے ۔ الغرض فکر اقبال کی تفہیم کے لیے یہ کتاب بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔
خلیفہ عبدالحکیم پاکستان کے نامور فلسفی، محقق، ماہر اقبالیات، مترجم اور مصنف خلیفہ عبدالحکیم یکم جولائی 1893ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی سے ایم اے (فلسفہ) اور ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ خلیفہ عبدالحکیم کی تصانیف میں افکار غالب، حکمت رومی، تشبیہات رومی، فکر اقبال اور داستان دانش کے نام سرفہرست ہیں۔ 30 جنوری 1959ء کو خلیفہ عبدالحکیم اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets