aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
انیسویں صدی کی ابتدا فورٹ ولیم کالج سے ہوئی جو اردو زبان و ادب کے لئے یقینا ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ اس نے اردو نثر کے لئے ایک ایسی راہ ہموار کی جس نے اردو نثر کو اس قابل بنا دیا کہ وہ دنیا کی دوسری ترقی یافتہ زبانوں کے دوش بدوش چل سکے۔ گورنر جنرل مارکوئس ویلزلی کی سرپرستی میں اس کالج کے شعبہ ہندوستانی کے پہلے پروفیسر ڈاکٹر جان بورتھوک گل کرسٹ کی کوششوں سے اردو نثر نے ایک نئے دور میں قدم رکھا۔ جہا ں مصنفین و مترجمین آتے یا بلائے جاتے اور اپنا کام کرتے، صلہ پاتے اور آگے نکل جاتے، بعض باقاعدہ ملازم بھی تھے مگر اس دور میں اس کالج میں جو کام ہوئے اس کی تعریف جتنی کی جائے کم ہے۔ اس کالج میں عربی ، فارسی، کی کتابیں آتیں ترجمہ ہوکر ایک نئے پیرائے میں لوگوں کے سامنے پیش ہوتیں اور خود کے حسن سے دوسروں کو مسحور کرتیں اور اپنا گرویدہ بنا کر چھوڑتیں۔ اگرچہ اس کی وجہ سے سب سے بڑا نقصان فارسی زبان کو ہوا کہ ہندوستان میں فارسی زبان کی گرفت ماند پڑنے لگی۔ مگر جب کوئی زبان آگے بڑھتی ہے تو کسی نہ کسی زبان کو گرا کر ہی آگے بڑھتی ہے سو اردو نے فارسی کی گردن پر اپنا پیر رکھا اور کچلتی ہوئی آگے نکل گئی۔ اس کتاب کو پانچ ابواب میں منقسم کیا گیا ہے ۔ پہلے باب میں اس کے اغراض مقاصد پر بحث کی گئی ہے اور دوسرے باب میں فورٹ ولیم سے وابستہ مصنفین و مترجمین کے حالات زندگی کو بیان کیا گیا ہے ۔ تیسرے باب میں اس کالج میں ترجمہ شدہ کتب کا تحقیقی و انتقادی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ چوتھے باب میں فورٹ ولیم کی نثر کے اسلوب پر بات کی گئی ہے ۔ پانچویں باب میں فورٹ ولیم کالج کے اردو زبان پر اثرات کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب فورٹ ولیم کالج کی خدمات کو سمجھنے کے لئے ایک بہترین کتاب ہے جسے اردو کے طلبہ کو ضرور پڑھنا چاہئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets