aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر نظر عشرت لکھنوی کے دس نئے مرثیوں کا مجموعہ "فرات غم" ہے۔عشرت کا لہجہ ایک جدید شاعر کا ہے۔ ان کے چند مرثیوں کے چہرے دیکھنے کے بعد ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شاعر کا لب ولہجہ جدید اور منفرد ہے۔عشرت لکھنوی مرثیوں کی ابتدا کبھی عام انسان کی موجودہ حالات سے، کبھی بے اطمینانی سے اور کبھی موجودہ آزادی کے غلط استعمال ،آزادی کے غلط تصور سے کرتے ہیں اور کبھی بارگاہ پروردگار میں دعا کرتے ہیں۔عشرت نہ مبالغے سے کام لیتے ہیں اور نہ تعلی سے بلکہ ان کی انکساری ان کے اشعار میں نمایاں ہے۔زیر نظر مختصر مرثیوں میں بھی لطف شعر و مآل مرثیہ کا خیال رکھا ہے۔ان مرثیوں کی اہم خوبی یہ ہے کہ انھوں نےروایت کی مکمل پاسداری کے ساتھ جدید مرثیے کہے ہیں۔عشرت نے "فرات غم" کا سرنامہ جس مرثیہ کو بنایا ہے اس کا عنوان "نماز اور حسین " ہے۔عشرت نے اس مرثیہ میں نماز کی اہمیت و افادیت کوبڑے پر اثر انداز میں بیان کیا ہے۔انھوں نے مرثیہ کو زندگی اور زندگی کو مرثیہ کے قریب لاکر معاشرتی زندگی کی حقیقی ترجمانی کی ہے۔