Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : علی سردار جعفری, قرۃالعین حیدر

اشاعت : 001

ناشر : پاپولر پرکاشن، ممبئی

مقام اشاعت : ممبئی, انڈیا

سن اشاعت : 1970

زبان : English

موضوعات : خواتین کی تحریریں

صفحات : 95

معاون : غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی

ghalib and his poetry
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

ترقی پسند شاعری کی نمائندہ آواز

’’ہمیں آج بھی کبیر کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اس روشنی کی ضرورت ہے جو اس سنت کے دل میں پیدا ہوئی تھی۔ آج سائنس کی بے پناہ ترقی نے انسان کا اقتدار بڑھا دیا ہے۔ انسان ستاروں پر کمند پھینک رہا ہے پھر بھی حقیر ہے۔ وہ رنگوں میں بٹا ہوا ہے، قوموں میں تقسیم ہے۔ اس کے درمیان مذہب کی دیوار کھڑی ہے۔ اس کے لئے اک نئے یقین، نئے ایمان اوراک نئی محبت کی ضرورت ہے۔‘‘ (سردار جعفری)

اردو کے لئے سردار جعفری کی مجموعی خدمات کو دیکھتے ہوئے انھیں محض اک معتبر ترقی پسند شاعر کے زمرہ میں ڈال دینا ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اشتراکی نظریہ ان کی رگ و پے میں سرایت کر گیا تھا لیکن ایک سیاسی کارکن، شاعر، نقّاد اور نثر نگار کے ساتھ ساتھ ان کے اندر ایک مفکر، دانشور اور سب سے بڑھ کر ایک انسان دوست ہمیشہ سانسیں لیتا رہا۔ کمیونزم سے ان کی وابستگی سوویت یونین کے زوال کے کے بعد بھی "وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے" کا عملی ثبوت دینا، ان کی دیانت داری، انسان دوستی اور ہر قسم کے معاشرتی و اقتصادی جبر کے خلاف ان کے غیر متزلزل کمٹمنٹ کا بیّن ثبوت ہے۔ 

سردار جعفری نے حالات حاضرہ اور زندگی میں روزمرّہ پیش آنے والے نت نئے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور اپنے عہد کے نبّاض کی حیثیت سے انھوں نے جو دیکھا اسے اپنی شاعری میں پیش کر دیا۔ سردار جعفری کی شخصیت پہلو دار تھی۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ تخلیقی نثر کے عمدہ نمونے اردو کو دئے۔ علمی نثر میں ان کی کتاب "ترقی پسند ادب" ان کی ناقدانہ بصیرت کی نشاندہی کرتی ہے۔ وہ افسانہ نگار اور ڈراما نویس بھی تھے۔ ان کو اردو میں دانشوری کی بہترین مثال کہا جا سکتا ہے۔ وہ علمی، ادبی، فلسفیانہ، سیاسی اور سماجی موضوعات پر ماہرانہ گفتگو کرتے تھے۔ اپنی 86 سالہ زندگی میں انھوں نے بےشمار لیکچر دئے۔ انھوں نے بطور ادیب مختلف ممالک کے دورے کئےاور اس طرح اردو کی بین الاقوامی سفارت کاری کا فریضہ بخوبی انجام دیا۔ اگر ہم شاعری میں ان کا موازنہ ترقی پسند تحریک کے سب سے بڑے شاعر فیض احمد فیض سے کریں تو پتہ چلتا ہے کہ فیض کی شاعری میں اشتراکیت کو تلاش کرنا پڑتا ہے جبکہ سردار کی اشتراکیت میں ان کی شاعری ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ 

سردار جعفری کا شعری لب و لہجہ اقبال اور جوش ملیح آبادی کی طرح بلند آہنگ اور خطیبانہ ہے۔ لیکن انھوں نے اپنی شعرگوئی کے طویل سفر میں کئی طرح کی اختراعات کیں اور جدّت کا ثبوت دیا۔ انھوں نے اپنے اشعار میں عوامی محاورے استعمال کئے، نظم کی بحور میں تبدیلی کی اور شعری لفظیات میں تصرف کیا۔ انھوں نے اردو فارسی کی کلاسیکی شاعری کا گہرا مطالعہ کیا تھا اسی لئے جب نہرو فیلوشپ کے تحت ان کو اردو شاعری میں امیجری کی ایک فرہنگ مرتب کرنے کا کام سونپا گیا تو انھوں نے صرف حرف الف کے ذیل میں 20ہزار سے زائد الفاظ اور تراکیب محض چند شعرا کے منتخب اشعار سے جمع کر دیں۔ بدقسمتی سے یہ کام مکمل نہیں ہو سکا۔ 

علی سردار جعفری 29 نومبر 1913 کو اتر پردیش میں ضلع گونڈہ کے شہر بلرام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے جدّ اعلیٰ شیراز سے ہجرت کر کے یہاں آ بسے تھے۔ ان کے والد کا نام سید جعفر طیار تھا۔ اس وجہ سے شیعہ گھرانوں کی طرح ان کے یہاں بھی محرم جوش و عقیدت سے منایا جاتا تھا۔ جعفری کا کہنا ہے کہ کلمہ و تکبیر کے بعد جو پہلی آواز ان کے کانوں نے سنی وہ میر انیس کے مرثیے تھے۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں انھوں نے خود مرثیے لکھنے شروع کر دئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم پہلے گھر پر پھر بلرام پور کے انگریزی اسکول میں ہوئی۔ لیکن انھیں پڑھائی سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی اور کئی سال ضائع کرنے کے بعد انھوں نے 1933 میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد ان کو اعلیٰ تعلیم کے لئے علی گڑھ بھی لےجایا گیا۔ لیکن 1936 میں انھیں طلبا کے ایجی ٹیشن میں حصہ لینے کی وجہ سے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا(برسوں بعد اسی یونیورسٹی نے ان کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی)۔ مجبوراً انھوں نے دہلی جاکر اینگلو عربک کالج سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی میں پہلے ایل ایل بی میں اور پھر ایم۔ اے انگلش میں داخلہ لیا۔ اس وقت لکھنؤ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ سجاد ظہیر، ڈاکٹر عبد العلیم، سبط حسن، اور اسرار الحق مجاز یہیں تھے۔ سردار جعفری بھی ان کے شانہ بہ شانہ سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہو گئے، نتیجہ یہ تھا کہ 1940 میں ان کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ 8 ماہ جیل میں رہے۔ اسی زمانہ میں سردار جعفری، مجاز اور سبط حسن نے مل کر ادبی رسالہ "نیا ادب" اور ایک ہفت روزہ اخبار پرچم نکالا۔ اس کا پہلا شمارہ 1939 میں شائع ہوا تھا۔ 1942 میں جب کمیونسٹ پارٹی سے پابندی ہٹی اور اس کا مرکز بمبئی میں قائم ہوا تو جعفری بمبئی چلے گئے اور پارٹی کے ترجمان "قومی جنگ" کے ادارتی عملہ میں شامل ہو گئے۔ 

سردار جعفری نے پارٹی کی سرگرم کارکن سلطانہ منہاج سے 1948میں شادی کرلی۔ بمبئی میں قیام کے دوران وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کے سبب دوبار گرفتار کئے گئے۔ انھوں نے کبھی کوئی مستقل ملازمت نہیں کی۔ بیوی سوویت ہاؤس آف کلچر میں ملازم تھیں۔ سردار جعفری نے شروع میں ساحر اور مجروح اور اخترالایمان کی طرح فلموں کے لئے گیت اور منظر نامے لکھنے کی کوشش کی لیکن وہ اسے ذریعہ معاش نہیں بنا سکے۔ 1960 کے عشرہ میں انھوں نے پارٹی کی عملی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور صحافتی و ادبی سرگرمیوں میں ان کی دلچسپی بڑھ گئی۔ انھوں نے ترقی پسند ادب کا ترجمان سہ ماہی رسالہ" گفتگو" نکالا جو 1965 تک شائع ہوتا رہا۔ وہ عملی طور پر بےحد متحرک اور فعّال انسان تھے۔ وہ مہاراشٹر اردو اکیڈمی کے ڈائریکٹر، انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر اورنیشنل بک ٹرسٹ و دیگر اداروں کے اعزازی رکن تھے۔ 

انھوں نے محمد اقبال، سنت کبیر، جنگ آزادی کے سو سال اور اردو کے ممتاز شعرا کے بارے میں دستاویزی فلمیں بنائیں۔ انھوں نے دیوان غالب اورمیر کی غزلوں کا انتخاب صحت اور سلیقہ کے ساتھ اردو اور دیو ناگری میں شائع کیا۔ ان کے کلام کے مجموعے پرواز 1944، نئی دنیا کوسلام 1946، خون کی لکیر 1949، امن کا ستارہ 1950، ایشیا جاگ اٹھا 1964 ایک خواب اور 1965 اور لہو پکارتا ہے 1978 میں شائع ہوئے۔ ان کی شعری تخلیقات کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں کئے گئے۔ اور اسکالرز نے ان کی شاعری پر تحقیقی کام کیا۔ سردار جعفری کو ان کی ادبی خدمات کے لئے جو پذیرائی ملی وہ بہت کم ادیبوں کے حصہ میں آتی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ کے علاوہ ان کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور سوویت لینڈ نہرو انعام سے نوازا گیا۔ ملک کی مختلف ریاستی اردو اکیڈمیوں نےانھیں انعامات اور اعزازات دئے۔ حکومت نےبھی ان کو پدم شری کے خطاب سےنوازا۔ 

آخری عمر میں دل کے عارضہ کے ساتھ ساتھ ان کے دوسرے اعضائے رئیسہ بھی جواب دے گئےتھے۔ یکم اگست 2000 کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا اور جوہو کے سنی قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ 

سردار جعففری کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر وحید اختر نے کہا ہے، "جعفری کے ذہن کی تشکیل میں شیعیت، مارکسزم، انقلابی رومانیت اور عصریت کے ساتھ اور بھی عوامل کارفرما رہے ہیں۔ وہ ان شعرا میں ہیں جنھوں نے شاعر کو نقاد کا منصب بھی دیا۔ اور اسے علمی حلقوں میں معتبر بنایا۔ جعفری نے ہر دور کے مسائل کو، اپنی راسخ العقیدہ ترقی پسندی کے باوجود، تخلیقی تجربے اور اس کے اظہار سے محروم نہیں رکھا۔ یہی ان کی بڑائی ہے اور اسی میں ان کی عصری معنویت کا راز مضمر ہے۔" 

.....مزید پڑھئے


قرۃ العين حيدر 20 جنوری، 1926ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ 1959ء میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ بطور صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ادبی تراجم بھی کیے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ انہوں نے 1964ء تا 1968ء ماہنامہ امپرنٹ کی ادارت کی اور السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں اداریہ لکھتی رہیں۔ ان کی کتابیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔
آخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی نوازا گیا جبکہ بھارتی حکومت نے انہیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔ 11 سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف کونشیئسنس تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔ ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔  

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے