aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
1857 کے حریت پسندوں میں اگرچہ غالب کا نام نہیں آتا مگر غالب وہ شخصیت ہے جو ان سب واقعات کو اپنی کھلی آنکھ سے دیکھ رہا تھا اور اس نے ان واقعات کو دستنبو میں قلم بند بھی کیا ہے۔ اگرچہ غالب کا اس جنگ میں کردار مشکوک سا معلوم پڑتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ غالب کی عمر جنگ میں شریک ہونے کی نہیں تھی مگر کیا ہی خوب ہوتا کہ ان جذبات کو وہ اپنی تحریروں میں بیان کر دیتے مگر انہوں نے جو لکھا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اس غدر کے خلاف تھے اور انہوں نے اپنی تحریروں میں حریت پسندوں کو برا بھلا کہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسی غدر کے ایام میں ان کا بھائی یوسف جو دماغ سے کمزور تھا، کو گولی مار دی گئی اور غالب کا روئیہ یہ رہا کہ اس کی نعش تک لینے نہیں گئے۔ وہ اس پورے زمانے میں اپنی برائت ظاہر کرنے کی فکر میں رہے کیونکہ ان کا تعلق بہادر شاہ ظفر سے تھا اور وہ بادشاہ کے بہت ہی قریبی تھے۔ اس کتاب میں غالب اور تحریک آزادی میں ان کا کردار کیا رہا پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ نیز ۱۸۵۷ سے متعلق ان کے خطوط کو تاریخی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے تاکہ موضوع کی بہتر تفہیم ہوسکے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets