aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
غالب کسی بھی مضمون کو بڑی خوبصورتی سے شعری پیکر میں ڈھالنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری نے کلام غالب پر تبصرہ کرتے ہوئے دیوان غالب کو "الہامی کتاب " قرار دیاتھا۔اس تبصرہ کے بعد کئی حلقوں سے داد و تحسین کی آوازیں گونجیں تو کہیں سے اس غیر معتدل مدحت سرائی کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند ہوئی،جس کی ایک مثال پیش نظر تصنیف " غالب :حیات اور اردو شاعری کی تنقیدی تحسین"ہے ۔جو دراصل ڈاکٹر سید عبداللطیف نے بزبان انگریزی "ghalib a critical appreciation of his life and urdu poetry"تحریر کی ہے۔ جو دراصل بجنوری صاحب کے مدحی تبصرے کے احتجاج کی صورت میں 1928 ء کو منظر عام پر آئی تھی۔جس میں غالب اور کلام غالب پر پہلی بار تنقیدی نگاہ ڈالی گئی ۔جس کے لیے مصنف نے کلام غالب کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا ہے۔تینوں حصے " اشعار غالب "پر مشتمل ہیں۔جن میں الگ الگ موضوعات کے تحت اشعار غالب کا جائزہ لیاگیا ہے۔اس کے علاوہ عبداللطیف نے غالب کا انگریزی شعرا سے تقابل بھی کیا ہے۔ہر حصہ میں اشعار غالب سے مثالیں بھی دی ہیں۔ پیش نظر عبداللطیف کی اسی گراں قدر تصنیف کا اردو ترجمہ ہے جسے سید معین الدین قریشی صاحب نے 1932ء میں شائع کیاتھا۔اس ترجمہ میں سید مظفر حسین برنی صاحب کا جامع اور مدلل پیش لفظ بھی شا مل ہے جس میں موصوف نے کلام غالب پر شائع ہوئی مختلف تحقیقی و تنقیدی کتب پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے ،عبداللطیف کی مذکورہ کتاب کا تجزیہ بھی کیا ہے۔یہ پیش لفظ ترجمہ کی اشاعت کی اہمیت کو واضح کرتا مدلل اور جامع ہے۔جس نے کتاب کی وقعت مزید بڑھا ئی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets