عابد سہیل ممتاز افسانہ نگار اور ایک باکمال صحافی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی ساری زندگی ادب اور صحافت کے ذریعے سماج کی منفی طاقتوں سے مقابلہ کرتے گزری۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے فعال کارکنوں میں شامل رہے اور عملی سطح پر پارٹی کی نظریاتی توسیع کی سر گرمیوں کا حصے بنے رہے۔ ’نیشنل ہالرائڈ‘ اور ’قومی آواز ‘میں ملازم رہے اور یادگار صحافتی خدمات انجام دیں۔
۱۷ نومبر ۱۹۳۲ کو اورئی ضلع جالون اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔اورئی اور بھوپال میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا۔ اور پھر اسی شہر میں ساری زندگی بسر کی۔
عابد سہیل نے یونیورسٹی کے زمانے میں ہی افسانے لکھنے شروع کردئے تھےاور بہت جلد انہیں ایک سنجیدہ افسانہ نگار کے طور پر بھی تسلیم کیا جانے لگا تھا۔صحافتی تجربہ ان کی کہانیوں کی بنت میں بہت معاون رہا۔ ان کی کہانیاں سماج کے براہ راست مشاہدے سے تشکیل پانے والی تخلیقی فکر سے ترتیب پاتی ہیں۔
افسانوں کے علاوہ انہوں نے مشہور علمی و ادبی شخصیات کے خاکے بھی لکھے۔جو’ کھلی کتاب‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔
زندگی کے آخری برسوں میں انہوں نے ’جو یاد رہا ‘ کے نام سے اپنی سوانح لکھی ۔ جسے اردو کی چند اچھی سوانحی کتابوں میں شمار کیاگیا۔ اس کے علاوہ فکشن کی تنقید پر لکھے گئے ان کے مضامین بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے گئے۔