aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
احسان دانش کی معرکہ آراء نظم "گورستان" پیش خدمت ہے۔ جو انھوں نے اپنی والدہ کی وفات پر لکھی تھی۔ یہ نظم ایک بیٹے کی اپنی والدہ سے بے پناہ محبت اور خلوص کی عمد ہ تصویر ہے۔ جس میں ایک بیٹے کا اپنی والدہ کو کھونے کا دکھ بھی عیاں ہے۔ المیات کی مصوری میں ویسے ہی احسان دانش کو کمال حاصل ہے، جس پر ان کی المیہ نظمیں شاہد ہیں۔ اور یہ نظم ان کے ذاتی دل پر گزری ہوئی واردات ہے، اس لئے جذبات الم کا مرقع بن گئی ہے۔
قاضی احسان الحق نام اور احسان تخلص تھا۔ ان کے والد قاضی دانش علی باغ پت ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے لیکن انہوں نے بعد میں کاندھلا میں سکونت اختیار کرلی۔ احسان یہیں 1913ء میں پیدا ہوئے۔ یوں تو احسان کے والد قاضی تھے اور ان کا نام قاضی دانش علی تھا۔ ان کے پاس اچھی خاصی جائیداد بھی تھی لیکن آہستہ آہستہ سب کا خاتمہ ہوگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں بھی مزدوری کرنی پڑی۔ احسان کی تعلیم کا مسئلہ سامنے تھا۔ جب وہ چوتھے درجے میں آئے تو ان کی کتابوں کے لئے گھر کے برتن بھی بیچنے پڑے۔ تعلیم جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہوگیا اور آخرکار یہ بھی اپنے والد کے ساتھ مزدوری کرنے لگے۔ بعد ازاں میونسپلٹی میں چپراسی ہوگئے لیکن افسروں سے ان کی بنی نہیں، لہٰذا نوکری چھوڑ کر لاہور چلے آئے اور یہاں بھی محنت و مشقت اور مزدوری کرنے لگے۔ خصوصاً عمارت سازی کے مزدوروں کے ساتھ انہیں کام کرنا پڑا۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ:۔ ’’علاوہ دیگرعمارتوں کے دیال سنگھ کالج اور پنجاب یونیورسٹی کے دفتر پر مزدوری کرنے کا مجھ کو فخر ہے۔‘‘
ان حالات میں بھی انہوں نے کتابوں سے اپنا رشتہ نہیں توڑا اور جو وقت بھی ملتا کتب بینی میں صرف کرتے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ ایک سیرگاہ میں چوکیدار ہوگئے۔ اس کے بعد ریلوے کے دفتر کے چپراسی۔ یہ نوکری بھی راس نہ آئی تو گورنمنٹ ہاؤس میں باغبانی کرنے لگے۔ پھر ان تمام الجھنوں سے الگ ہو کر گیلانی بک ڈپو میں بیس روپئے ماہوار پر ملازمت شروع کی۔ اپنا ذاتی کتب خانہ بھی قائم کیا جو ’’مکتبہ دانش‘‘ کے نام سے لاہور کے محلہ مزنگ میں تھا۔
احسان دانش اس وقت شاعری کر رہے تھے جب وہ ریلوے کے دفتر میں چپراسی تھے۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ انہوں نے کسی کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہیں کیا جو بھی شعری صلاحیت پیدا ہوئی وہ کتب بینی ہی سے ہوئی۔ احسان کا شاعری کے بارے میں ایک خاص نقطہ نظر ہے۔ وہ اس کے معاشرتی پہلو کو بہت اہم سمجھتے ہیں اور شاعری کو زندگی کے قریب کر کے اس کے مسائل کا عکس پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جذبات و خیالات اور واقعات کو عام فہم اردو میں پیش کرنا چاہئے تاکہ خواص کے ساتھ عوام بھی استفادہ کرسکیں۔ ردیف و قافیہ کی پابندی کو وہ لازمی قرار دیتے ہیں۔ احسان دانش ہندی کے غیرمانوس الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ ان کی نگاہ میں میر، غالب اور فانی بدایونی اہم ہیں۔ میرانیس کے بھی وہ مداح رہے ہیں۔
احسان دانش ایک ترقی پسند شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ ترقی پسند حضرات انہیں اپنے زمرے میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل احسان دانش بھی ویسے ہی رومانی تصورات رکھتے ہیں جو ترقی پسندوں کی روش رہی ہے۔ چانچہ ان کا ذہن بھی انقلابی ہے۔ طبقاتی کشمکش سے بیزار، مروجہ نظام حکومت سے متنفر اور عدم مساوات سے دکھی نظر آتے ہیں۔ احسان برابری اور بھائی چارگی کی تلقین کرتے ہیں۔ گویا ان کی نگاہ میں شعروادب زندگی سے جوجھنے کا نام ہے لیکن ان تمام امور کے باوجود احسان شاعری کی موسیقی سے ہمکنار رکھنے میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے یہاں بے ساختگی کے ساتھ ساتھ نغمگی اور ترنم کا احساس ہوتا ہے۔
احسان دانش نے شخصی مرثیے بھی لکھے ہیں۔ خصوصاً تاجور نجیب آبادی کے بیٹوں کی وفات پر ان کا مرثیہ بڑا پراثر ہے۔ احسان دانش کی تخلیقات میں ’’نوائے کارگراں‘‘، ’’چراغ آتش خاموش‘‘، ’’جادہ نو‘‘، ’’زخم مرہم‘‘، ’’مقامات‘‘، ’’گورستان‘‘، ’’شیرازہ‘‘ ، ’’لغات الاصلاح‘‘، ’’دستوراردو‘‘، ’’خضرعروض‘‘، ’’روشنی‘‘ اور ’’طبقات‘‘ اہم ہیں۔
ان کی نظم ’’سادھو کی چتا‘‘ کے آخری اشعار کے کچھ بند نقل کر رہا ہوں:۔
میرے قصر زندگی میں زلزلہ سا آگیا
روح کے آئینہ خانے میں دھندلکا چھا گیا
بزم عشرت اٹھ گئی تنبور غم بجنے لگا
ضربت تشویش سے ساز الم بجنے لگا
عبرت اٹھی آرزو بیٹھی تمنا سوگئی
یاس نے انگڑائی لی امید زخمی ہوگئ
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets