aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر تبصرہ کتاب بیخود دہلوی کا دیوان "گفتار بیخود" ہے۔ جس کے شروع میں کچھ نیا کلام شامل ہے، اس کے بعد میخانہ بیخود کے نام سے ایک مضمون ہے جو بیخود کی زندگی اور شاعری پر روشنی ڈالتا ہے۔ بیخود دہلوی کا پورا نام سید وحید الدین احمد ہے، آپ کو داغ کا جانشین کہا جاتا ہے۔ کلام میں وہی داغ والا لطف اور دلچسپی ہے۔ دہلی کی مستند اور ٹکسالی با محاورہ زبان ہے۔ زیر نظر دیوان میں غزلوں کے علاوہ اساتذہ کی غزلوں پر مخمس ہیں، رباعیات و قطعات ہیں، سہرے اور تقریظات ہیں، دو قصیدے بھی ہیں۔ اس کے بعد دیوان کی منظوم تاریخیں ہیں۔
نام سید وحید الدین، تخلص بیخودؔ ۔ پہلا تخلص نادرؔ تھا۔۲۱؍مارچ ۱۸۶۳ء کو بھرت پور میں پید اہوئے۔ دہلی ان کا مولد ومسکن تھا۔ بیخودؔ نے دہلی میں اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا حالیؔ سے ’’مہرنیم روز‘‘ اور اساتذہ کے دواوین پڑھے۔ حالیؔ ہی کے ایما سے داغؔ کے شاگرد ہوئے۔ شاعری بیخودؔ کو ورثے میں ملی تھی۔ شاعری میں دلی ٹکسالی زبان،محاورات اور روز مرہ کا استعمال جس خوبی سے بیخود کرتے تھے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی وجہ سے تمام اساتذ�ۂ فن نے انھیں داغؔ کا صحیح جانشین تسلیم کیا ہے۔ بیخودؔ خوش پوشاک اور خوش خوراک ہونے کے علاوہ شاہ خرچ بھی تھے۔ ۱۹۴۸ء میں وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کچھ وظیفہ مقرر کردیا تھا۔ ۱۵۰ روپیہ ماہوار وزارت تعلیم حکومت ہند سے ملتا تھا جس کے سربراہ مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ ان کے دو دیوان’’گفتار بیخود‘‘ اور ’’شہوار بیخود‘‘ طبع ہوچکے ہیں ۔ ۲؍اکتوبر ۱۹۵۵ء کو دہلی میں انتقال ہوا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets