aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
میر ببر علی انیس کے نواسے رشید لکھنوی کا نام سید محمد مصطفی مرزا تھا۔ رشید تخلص کرتے تھے۔ پیارے صاحب عرفیت تھی۔ ان کی پیدائش 5 مارچ 1847 کو لکھنؤ میں ہوئی۔ گھر میں شعر وشاعری کا ماحول تھا ان کے والد احمد مرزا صابر بھی شاعری کرتے تھے اور ان کے چچا عشق وتعشق ( لکھنوی ) کا شمار بھی اہم ترین شاعروں میں ہوتا تھا۔ علم وادب کی اس بھری پری فضا میں رشید لکھنوی نے پرورش پائی۔
رشید لکھنوی نے مرثیہ، غزل اور رباعی کی اصناف میں شاعری کی۔ رشید کے پیچھے اگرچہ مرثیے کی ایک بہت ثروت مند اور توانا روایت تھی لیکن اس کے باوجود بھی ان کے یہاں زبان، بیان اور موضوعات کی سطح پر تازگی کا احساس ہوتا ہے۔
رشید لکھنوی کا ایک شاعرانہ کمال ان کی وہ رباعیاں ہیں جو انہوں نے عرصۂ شباب اور عرصۂ پیری کو موضوع بنا کر کہی ہیں۔ اس مضمون کو سلسلہ وار انداز میں جس خوبصورتی سے رشید نے برتا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
رشید مرثیہ خوانی کے فن میں بھی کمال رکھتے تھے اور ملک کے مختلف گوشوں میں منعقد ہونے والی اہم مجالس میں بہت احترام کے ساتھ مدعو کئے جاتے تھے۔1918 میں ان کا انتقال ہوا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets