aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"ہماری شاعری" مسعود حسن رضوی کی مایہ ناز کتابوں میں سے ایک ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1927 میں منظر عام پر آئی تھی، یہ کتاب آج تک اپنے موضوع پر منفرد کتاب ہے، جس سے طلباء اور اساتذہ دونوں کو یکساں فائدہ حاصل ہوتا ہے،اس کتاب میں مسعود حسن رضوی نے شعرکی ماہیت و اہمیت، شعر کی عروضی اور منطقی تعریف، شعر کی معنوی خوبیاں، خیال کی سادگی، مضمون کی بلندی، اور مضمون کی نزاکت کیا ہوتی ہے؟ ایسے ہی بیان کی سادگی ، سلاست، ایجاز و اختصار، تشبیہ و استعارات اور تعقید لفظی و معنوی وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات سے بھی بحث کی ہے کی شعر کا ترجمہ کرنا کیوں مشکل ہوتاہے۔؟ گویا کتاب کے دو حصے ہیں پہلے حصہ میں شعر کی اہمیت و ماہیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کی لفظی و معنوی خوبیاں شمار کروائی گئیں ہیں۔ جبکہ دوسرے حصے میں اردو شاعری پر اٹھنے والے اعتراضات اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بعض لوگ اس کتاب کو حالی کے "مقدمہ شعرو شاعری" کے جواب کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن خود مصنف اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے فرماتے ہیں، "خواجہ حالی کی رایوں سے اختلاف کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ جو کچھ انہوں نے چھوڑ دیا تھا اسے پورا کرنے کی کوش کی گئی ہے۔ یعنی "ہماری شاعری"، "شعر و شاعری" کا جواب نہیں بلکہ اس کا تتمہ ہے۔"
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free