aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
خورشید ہاشمی کی ناول "حسن بن صباح كی جنت" ایك عیار مذہبی رہنما كی ریاكاریوں كی سرگذشت پر مبنی ہے۔یہ ایران كی قدیم تاریخ سے متعلق ایك عبرت انگیز ناول ہے۔حسن الصباح 1150 كی دہائی میں ایرانی شہر قم میں پید اہوا تھا۔اس نے قلعہ الموت كو اپنا مركز بنا كرآس پاس كے وسیع علاقے میں اپنا پیغام پھیلانے كا كام شروع كیا۔كچھ عرصے بعد اطراف كے كئی قلعوں پر بھی اس نے قبضہ کرلیا۔كچھ لوگوں پربزور قابض ہوگیا اور كچھ لوگوں نے اس كی دعوت سے متاثر ہوكر اپنے دروازے اس كے لیے كھول دیئے تھے۔یہ دنیا كا سب سے بڑا عیار مانا جاتا ہے۔اس ناول كا پس منظر ایران كی قدیم تاریخ سے تعلق ركھتا ہے۔یہ ایران كے اس مكار زاہد كی ریاكاریوں كی سرگزشت ہے جس نے پانچویں صدی ہجری كےآخر میں اپنی عیارانہ سازشوں اور انقلابی سرگرمیوں كی بناپر ایران كی سلجوقی حكومت كی بنیادیں ہلادیں تھیں۔حسن صباح حضرت امام غزالی كا ہم عصر اور وزیر اعظم ایران نظام الملك طوسی اور حكیم عمر خیام كا ہم سبق رہ چكا تھا۔اس نے سلطنت ایران میں نہایت ہی بلند منصب بھی حاصل کیاتھا،لیكن اس كی مكاریوں كی وجہ سے جلد ہی اس منصب سےبرطرف كردیاگیاتھا۔اس نے قلعہ الموت میں ایك خانہ ساز جنت عوام كو گمراہ كرنے كے لیےبنا ركھی تھی۔جس میں بے شمار خوبصورت لڑكیاں موجود تھیں۔ جس كے فریب میں لوگ اس كی دعوت كو قبول كرتے۔لیكن اسی جنت كی ایك حور نے اس كی تمام عیاریوں كا پردہ فاش كردیا تھا۔اس طرح یہ ناول حسن و عشق كے تاریخی واقعات سےاول تا آخر رنگا رنگ اور دلچسپ ہے۔