aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سعید سرمد حقیقت شناس، ذی علم،حلیم الطبع شخص تھے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے ہم عصر اور داراشکوہ کے پیرومرشد تھے۔ وہ اپنے دورکے مجذوب تھے،قوم کے یہودی تھے لیکن بعد میں اسلام قبول کر لیا۔ داراشکوہ کے قتل کے بعد سرمد کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اورنگ زیب عالمگیر کے درباری لوگوں کو گراں گزری لہٰذا انھوں نے مختلف سازشوں کے تحت سرمد کوکافر قراردیتے ہوئے واجب القتل ٹھہرایا،لیکن سرمد پراس سزا کا کوئی اثر نہیں پڑا، انھوں نے پوری ثابت قدمی کے ساتھ خود کو موت کے حوالے کردیا،سرمد کی شہادت کا یہ واقعہ 1069میں اورنگ زیب عالم گیر کی تخت نشینی کے تقریباً تین سال بعد وقوع میں آیا،وہ ایران کے ارمنی خاندان سے تعلق رکھتے تھے،سعید سرمد بنیادی طور پر ایک صوفی انسان تھے لہٰذا ان کی بیشتر رباعیات ان کے صوفیانہ عقائدو نظریات کی نمائندہ ہیں ان رباعیات میں حکمت ومعرفت، عشق ومحبت، اخلاق وکرداراورذہنی و روحانی نعمتوں کے جو اسرار رمو ز پوشیدہ ہیں ان سے اہل دل اور صاحب نظر ہمیشہ حظ ولذت اٹھاتے رہے ہیں ان کے یہاں جو دین سے وارفتگی، مذہبی جذبات کی صداقت، عقیدت کی چاشنی اور علمی تجربہ ملتا ہے وہ کسی دوسرے رباعی گو شاعر کے یہاں اتنی شدت اور صداقت کے ساتھ موجودنہیں ہے اور ان کی انھیں خصوصیات نے ان کودرجہ اول کا رباعی گو شاعر ہونے کا درجہ بخشاہے، زیر نظر کتاب سرمد شہید کی مختصر حالات زندگی ہے جسے مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے مخصوص انداز میں خواجہ حسن نظامی کی فرمائش پر تحریر کیا تھا۔
ابوالکلام آزاد کی پیدائش 1888 میں مکہ معظمہ میں ہوئی۔ ان کا اصل نام محی الدین احمد تھا مگر ان کے والد مولانا سید محمد خیرالدین بن احمد انہیں فیروز بخت کے نام سے پکارتے تھے۔ ابوالکلام آزاد کی والدہ عالیہ بنت محمد کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا۔ آزاد کے نانا مدینہ کے ایک معتبر عالم تھے جن کا شہرہ دور دور تک تھا۔ اپنے والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آزاد مصر کی مشہور درسگاہ جامعہ ازہر چلے گئے جہاں انہوں نے مشرقی علوم کی تکمیل کی۔
عرب سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تو کلکتہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ یہیں سے انہوں نے اپنی صحافتی اور سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ کلکتہ سے ہی 1912 میں ’الہلال‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالا یہ پہلا با تصویر سیاسی اخبار تھا اور اس کی تعداد اشاعت تقریباً 52 ہزار تھی۔ اس اخبار میں انگریزوں کی پالیسیوں کے خلاف مضامین شائع ہوتے تھے اس لیے انگریز حکومت نے 1914 میں اس اخبار پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد مولانا نے ’البلاغ‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا یہ اخبار بھی آزاد کی انگریز مخالف پالیسی پر گامزن رہا۔
مولانا آزاد کا مقصد جہاں انگریزوں کی مخالفت تھا وہیں قومی ہم آہنگی اور ہندو مسلم اتحاد پر ان کا پورا زور تھا۔ انہوں نے اپنے اخبارات کے ذریعے قومی، وطنی جذبات کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ مولانا ابولکلام آزاد نے ’پیغام‘ اور’لسان الصدق‘جیسے اخبارات و رسائل بھی شائع کیے اور مختلف اخبارات سے بھی ان کی وابستگی رہی جن میں ’وکیل‘ اور ’امرتسر‘ قابل ذکر ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد سیاسی محاذ پر بھی سرگرم رہے۔ انہوں نے’تحریک عدم تعاون‘ ’ہندوستان چھوڑو‘ اور ’خلافت تحریک‘ میں بھی حصہ لیا۔ مہاتما گاندھی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خاں اور علی برادران کے ساتھ ان کے بہت اچھے مراسم رہے۔ گاندھی جی کے فلسفۂ عدم تشدد سے وہ بہت متاثر تھے۔ گاندھی جی کی قیادت پر انہیں پورا اعتماد تھا۔ گاندھی کے افکار و نظریات کی تشہیر کے لیے انہوں نے پورے ملک کا دورہ کیا۔
مولانا آزاد ایک اہم قومی لیڈر کی حیثیت سے ابھرے۔ وہ کانگریس پارٹی کے صدر بھی رہے، تحریک آزادی کے دوران انہیں جیل کی مشقتیں بھی سہنی پڑیں۔ اس موقع پر ان کی شریک حیات زلیخا بیگم نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ زلیخا بیگم بھی آزادی کی جنگ میں مولانا آزاد کے شانہ بہ شانہ رہیں۔ اس لیے ان کا شمار بھی آزادی کی جانباز خواتین میں ہوتا ہے۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد مولانا آزاد ملک وزیر تعلیم بنائے گئے۔ انہوں نے وزیر تعلیم کی حیثیت سے بہت اہم کارنامے انجام دیے۔ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن اور دیگر تکنیکی، تحقیقی اور ثقافتی ادارے ان ہی کی دین ہے۔
مولانا آزاد صرف ایک سیاست داں نہیں بلکہ ایک صاحب طرز ادیب، بہترین صحافی اور مفسر بھی تھے۔ انہوں نے شاعری بھی کی، انشائیے بھی لکھے، سائنسی مضامین بھی تحریر کیے، علمی و تحقیقی مقالات بھی لکھے۔ قرآن کی تفسیر بھی لکھی۔ غبار خاطر، تذکرہ، ترجمان القرآن ان کی اہم نصانیف ہیں۔ ’غبار خاطر‘ ان کی وہ کتاب ہے جو قلعہ احمد نگر میں قید کے دوران انہوں نے تحریر کی تھی۔ اس میں وہ سارے خطوط ہیں جو انہوں نے مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی کے نام تحریر کیے تھے۔ اسے مالک رام جیسے محقق نے مرتب کیا ہے اور یہ کتاب ساہتیہ اکادمی سے شائع ہوئی ہے۔ یہ مولانا آزاد کی زندگی کے حالات اور ان کے کوائف جاننے کے لیے بہترین ماخذ ہے۔
مولانا آزاد اپنے عہد کے نہایت جینیس شخص تھے جس کا اعتراف پوری علمی دنیا کو ہے اور اسی ذہانت، لیاقت اور مجموعی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’بھارت رتن‘سے نوازا گیا تھا۔
مولانا آزاد کا انتقال 2 فروری 1958 کو ہوا۔ ان کا مزار اردو بازار جامع مسجد دہلی کے احاطہ میں ہے-
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets