aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
علامہ شبلی کی شخصیت اردو سوانح نگاروں کی صف میں سب سے قدآور ہے۔ مولانا شبلی نے مستقل تصنیفات کے علاوہ مختلف عنوانات پر سیکڑوں علمی و تاریخی و ادبی و سیاسی مضامین لکھے جو اخبارات و رسائل کے صفحات میں منتشر ہیں۔ شبلی نعمانی 1857ء اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ۔۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد شیخ حبیب اللہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی سے ریاضی، فلسفہ اور عربی کا مطالعہ کیا۔ علی گڑھ جاکرسرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی،اوروہیں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے علامہ شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1882 میں"علی گڑھ کالج" سےمنسلک ہوئے اور یہاں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔یہاں سر سید سے ملےان کا کتب خانہ ملا،یہاں تصانیف کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے اردو ادب کے دامن کو تاریخ،سیرت نگاری،فلسفہ ادب تنقید اورشاعری سے مالا مال کردیا،سیرت نگاری،مورخ،محقق کی حیثیت سے کامیابی کے سکے جمائے 1892ءمیں روم اورشام کا سفرکیا۔1898ءمیں ملازمت ترک کرکےاعظم گڑھ چلے گئے۔1913ء میں دارالمصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ءمیں انتقال ہوا زیرتبصرہ کتا ب"حیات شبلی"علامہ شبلی نعمانی کے نامور شاگرد اور کی رفاقت میں 8برس گزارنے والے مولانا سید سلیمان ندویؒ کی تصنیف ہے جس میں انہوں نےشمس العلماء علامہ شبلی نعمانی کے سوانح حیات اور ان کےعلمی وعملی کارنوں کو بڑی تفصیل سے پیش کیا ہے۔مولانا شبلی کی حیات وخدمات پر یہ ایک مستند کتاب ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets