aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
وارث شاہ مشہور زمانہ تصنیف ”ہیر“ کے خالق اور پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر ہیں۔ سید وارث شاہ درحقیقت ایک درویش صوفی شاعر ہیں۔ وارث شاہ کا دور محمد شاہ رنگیلا سے لیکر احمد شاہ ابدالی تک کا دور ہے۔ وارث شاہ کو پنجابی زبان کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے۔ پنجابی زبان کو آپ نے ہی عروج بخشا ہے۔ پنجابی کی تدوین و ترویج میں وارث شاہ نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آپکا کلام پاکستان اور ہندوستان بالخصوص سکھوں میں بہت مقبول ہے۔زیر نظر کتاب حضرت وارث شاہ کا مونو گراف ہے۔ دہلی اردو اکادمی نے ادب عالیہ کے حوالے سے اردو کلاسکی ادباء و شعراء کے مختصر حالات زندگی اور ان کی منتخب تحریروں کو مونوگراف کی شکل میں شائع کیا ہے ،ان مونو گراف کے ذریعہ نئی نسل کو اردو کے مشاہیر کے حیات اور کارنا موں سے واقف کرایا گیا ہے، چنانچہ اردو ادب کی بہت سے پایہ کے ادباء شعراء کے مونو گراف ، دہلی اردو اکادمی کی زیرنگرانی منظر عام پر آ چکےہیں اور نئی نسل ان سے خاطر خواہ استفادہ کر رہی ہے ، ان مونو گراف میں چند چیزوں کا خیال کیا گیاہے ،دہلی اردو اکادمی نے مختلف قلم کاروں سے جو مونو گراف لکھوائے ان میں سادہ اور شگفتہ اسلوب پر زور دیا گیا ہے ۔مونو گراف کا پہلا حصہ ادیب کی مونو گراف پرمشتمل ہوگا یعنی ادیب یا شاعرکے حالات زندگی ، تصانیف اورتصنیفی زندگی کے محرکات ، مصنف کی نمایاں خصوصیات اور دیگر اہم معلومات ہونگی ،جبکہ دوسرے حصے میں ادیب یا شاعر کی جامع تخلیقات پیش کی جائینگی ،چنانچہ زیر تبصرہ مونو گراف میں حضرت وارث شاہ کی شخصیت اور ان کے فن و تخلیقات پر تحقیقی مواد پیش کیا گیا ہے۔
ترقی پسند دور کے آخری چراغ رتن سنگھ کا گزشتہ سال مارچ ۲۰۲۱ میں قریب ۹۵ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ اس طرح انہوں نے حیققت پسندی، ترقی پسندی اور جدیدیت تینوں ادوار کو دیکھا، پرکھا اور محسوس کیا۔ یوں تو رتن سنگھ اپنے افسانوں کی وجہ سے اردو ادب میں خوب جانے پہچانے جاتے ہیں، تاہم ناول نگاری اور سوانح نگاری کے شعبہ میں ان کا بڑا نام ہے۔ ''سانسوں کا سنگیت" ان کا بہترین ناول ہے جبکہ ''دربدری" سوانح پر مبنی ناول ہے۔ بچوں کے ادب سے ان کا بڑا گہرا ربط رہا اور بچوں کے لئے متعدد کہانیاں بھی لکھیں۔ ''صبح کی پری" بچوں کے لئے لکھا گیا ناولٹ ہے، اسی طرح ''کاٹھ کا گھوڑا" ادب اطفال کے تحت افسانوں کا مجموعہ ۱۹۱۳ میں شائع ہوا۔ ''پنجرے کا آدمی" ۱۹۷۳ میں، ''مانک موتی" ۱۰۹۰ میں، اور ''پناہ گاہ" ۲۰۰۰ میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ترجموں پر مبنی ان کی متعدد تصانیف ہیں۔ انہوں نے ایک جانب گرو گرنتھ کا ترجمہ اردو میں کیا تو دوسری جانب ''شلوک شیخ بابا فرید" کا ترجمہ کرکے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ شاعری سے رغبت کا اظہار ''روپ انوپ" دوہوں کے مجموعے کی شکل میں موجود ہے۔ رتن سنگھ کی پیدائش ۱۵ نومبر ۱۹۲۷ کو قصبہ داؤد، تحصیل نارودال ضلع سیالکوٹ میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم قصبہ داؤد ہی میں حاصل کی۔ میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداس پور سے ۱۹۴۵ میں پاس کیا۔ انٹر پنجاب ایجوکیشن بورڈ سے اور بی اے لکھنؤ یونیورسٹی سے ۱۹۶۰ میں کیا۔ دوران طالب علمی ۱۹۴۶ سے ۶۲ تک انڈین ریلوے کی ملازمت کی اور تعلیم کے حصول کے بعد ۱۹۶۲ سے ۱۹۸۵ تک آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہے، سری نگر ریڈیو اسٹیشن میں ڈائریکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets