Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : عبد اللہ کمال

اشاعت : 001

ناشر : نیو سلور بک ایجنسی، ممبئی

مقام اشاعت : ممبئی, انڈیا

سن اشاعت : 1969

زبان : Urdu

موضوعات : ناول

صفحات : 26

معاون : مٹیابرج ہندوستانی لائبریری، کولکاتہ

ہیروں کا جزیرہ
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

عبداللہ کمال 17؍ اپریل 1948ء کو مظفرپور (بہار) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حافظ محمد صدیقی اپنے علاقے کے صاحب علم شخص تھے۔ مذہبی اور ادبی کتابوں کا کافی اچھا ذخیرہ آپ کے گھر میں تھا۔ عبداللہ کمال نے اپنی کم عمری میں ہی ان میں سے بہت ساری کتابیں پڑھ ڈالیں تھیں۔ عربی، اردو اور فارسی مکتب میں سیکھی۔ عابدہ ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ یہ انگریزی ہائی اسکول تھا۔ مختلف شہروں میں بھٹکتے رہے۔ جہاں وہ اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کی۔ ممبئی آئے یہاں آکر انہوں نے مہاراشٹر کالج سے بی اے کیا۔

اپنے ابتدائی دور ہی میں انقلاب کے لیے انگریزی ناول کا ترجمہ 1967ء تک کرتے رہے۔ کچھ نہ کچھ کام کرتے رہے۔ پہلے افسانے لکھا کرتے تھے مگر یہ میدان چھوڑ کر شاعری شروع کی اور ممبئی کے جدید شاعری کے شہسوار بنے۔ تعلیم بھی حاصل کی۔ ایم۔اے (اردو اور فارسی) کیا اور ان کا ایک اہم کارنامہ مختصر اردو لغت جو 1987ء میں انجمن ترقی اردو نے شائع کی۔ اس کام کو انہوں نے دہلی میں رہ کر کیا تھا۔ تین مجموعے شائع ہوئے۔ ’’میں‘‘(1970 ء)، ’’بے آسماں اور‘‘(1987ء) اور 2012 میں ان کی بقیہ چیزیں جو ان کی موت کے بعد ان کی بیوی شیریں دلوی نے شائع کیا۔

عبداللہ کمال مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ بڑے دھیمے لہجے میں شعر پڑھتے تھے۔ کوئی ہنگامہ نہیں، کوئی حرکت نہیں، سیمیناروں میں اپنا مقالہ بڑے اطمینان سے سناتے تھے۔ انہیں کسی کی پرواہ نہیں کہ لوگ ان کی بات سن رہے ہیں یا نہیں۔ ہر سال دو سال میں ان کو اپنا گھر بدلنا پڑتا تھا۔ کرایہ کے مکان میں رہتے تھے۔ دل کی بیماری نے انہیں مجبور کردیا تھا۔ پھر بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری، ترقی پسند تحریک کے ڈوبتے ہوئے ستارے کی طرح اپنا نور، اپنی چمک دمک، اپنی گھن گرج اور اپنی کشش کھو چکی اور کئی بڑے بڑے بتوں کو تراش کر ایوان ہائے حکومت میں ایستادہ کر چکی تھی۔ ہر شروعات، ہر عطا و بخشش انہیں بتوں کے حصے میں آئی تھی اور اردو کی نئی نسل اپنی فکری اور عقائد کی شناخت لئے دربدری کا عذاب جھیل رہی تھی۔ زندگی کا یہ وہ کریہہ منظر اور اذیت ناک پہلو تھا جس نے نئی شاعری میں کرب مایوسی ٹوٹنے بکھرنے کے خالات کو جگہ دی لیکن اس زمانے کے کچھ شاعروں نے اس کرب کو برداشت کیا اور اپنی شاعری میں اسے شامل نہیں کیا ان شعراء میں عبداللہ کمال کا بھی نام بڑا اہم ہے۔ عبداللہ کمال شاعروں کی جس نسل سے تعلق رکھتے تھے وہ اپنی سابقہ نسل کے مقابلے میں ذہنی اور فکری طور پر زیادہ تیزوطرار تھی اپنے جائز مقام و مرتبے سے محرومی اور نارسائی نے اس نسل کو اپنی ذات کے غم سمیٹنے پر مجبور کریا۔ لیکن عبداللہ کمال نے خود کو سنبھالا۔ انہیں یہ احساس تھا کہ روایت سےبغاوت توسہی ہے مگر اجنبی علائم۔ محروخیالات بے سروپا مضامین کی بندش سے اردو شاعری کے تہذیبی اور تخلیقی بہاؤ سے وہ بہت دور خشکی میں تیراکی کا مظاہرہ کریں گے۔ انہوں نے اپنا رشتہ غزل سے جوڑ کر رکھا۔ وہ خود کہتے ہیں کہ:۔ 

’’زبان و بیان کی تازگی بھی نئی غزل میں معنی کی ایک دنیا، ایک نئی فضا تخلیق کرتی ہے‘‘۔ 

عبداللہ کمال کے یہاں بھی زبان اسلوب اور بیان کی بڑی تازگی ملتی ہے۔ انہوں نے اپنے شعری لفظیات اور علائم بھی دریافت کئے ہیں۔ کئی برسوں تک عبداللہ کمال راج کھوسلہ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر رہے۔ راج کھوسلہ کی کئی فلموں میں آپ کا نام آتا تھا۔ بعد میں اپنے مزاج کی وجہ سے ڈاریکشن چھوڑ کر ادبی دنیا سے وابستہ ہوئے۔ صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ پھر غزلیں بھی خوب کہیں۔ مشاعروں کے شاعر نہیں تھے مگراہم مشاعروں میں شامل ہوتے تھے۔ان کی نثر بڑی پیاری تھی۔ 

عبداللہ کمال کو تقریباً بارہ سال میں بارہ بار انہیں ہارٹ اٹیک آیا۔ ہر بار سنبھلے مگر کہاں تک سنبھلتے۔ پھر ایک دن خبر آئی کہ عبداللہ کمال ہم سے رخصت ہوگئے۔ 

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے