aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
نعت گوئی کو شاعری کا نگینہ کہا جاتاہے ۔نعت کا فن بہ ظاہر جس قدر آسان نظر آتا ہے ، بباطن اسی قدر مشکل ہے ۔ناقدین ِ ادب اس کو مشکل ترین صنف ِسخن شمار کرتے ہیں کیوں کہ ایک طرف وہ ذات ِگرامی ہے ، جس کی مد ح خود رب العالمین نے کی ہے ۔ دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں۔اس لیے نعت کا حق وہی ادا کر سکتا ہے ، جو جذبۂ عشقِ رسول ﷺسے سرشار ہو اور فن ِ شاعری کی باریکیوں سے بھِی واقف ہو ، زیر نظر کتاب اختر لکھنوی کا نعتیہ مجموعہ ہے۔جس میں انھوں نے سرور کائینات سے بصیرت و کیفیت حاصل کر کے اس کیفیت کو نعت میں منتقل کردیا ہے۔
نام محمود الحسن اور اختر تخلص تھا۔ ۱۴؍ستمبر۱۹۳۴ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ شروع میں مکتب میں تعلیم پائی۔۱۹۵۰ء میں ڈھاکہ آئے۔ شاعری کا آغاز پہلے ہی ہوچکا تھا۔ ڈھاکا آنے کے بعد کچھ عرصہ انجمن ترقی اردو، مشرقی پاکستان کے آفس سکریٹری رہے۔ اس کے بعد صحافت سے منسلک ہوگئے۔ آخر میں ریڈیو پاکستان ، ڈھاکا سے وابستہ ہوئے۔ ٹی وی پر وہ خبریں بھی پڑھتے تھے۔ چند فلموں کے گانے اور مکالمے لکھے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد کراچی آگئے اورریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔ ۱۹۹۴ء میں ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔ ۲۷؍ستمبر ۱۹۹۵ء کو اورنگی ، کراچی میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’دیدۂ تر‘، ’شاخ نہال غم‘(غزلوں کے مجموعے)، ’حضور‘، ’سرکار‘ (نعتوں کے مجموعے)۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:289
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets