aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شکسپئر کے ڈرامے’’جولئیس سیزر‘‘ میں ایک سچویئشن ایسی آتی ہے جہاں سیزر کے خلاف سازشیں ہونے لگتی ہیں اور بات یہاں تک بڑھتی ہے کہ ایک دن لوگ اس کے قتل پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور اس کو گھیر لیتے ہیں ان میں اس کا دوست بروٹس بھی خنجر بکف سامنے آتا ہے جس سے یہ امید تھی کہ وہ ان سازش کرنے والوں کا ساتھ نہ دے گا۔ بروٹس کو دیکھ کر سیزر کے منہ سےنکلتا ہے۔ ’’ارے!بروٹس تم بھی؟‘‘
ایسے واقعات انسانی معاشرے میں برابر دیکھنے میں آتے ہیں کہ جن لوگوں کے بھروسے یا اعتماد کے تصور کے ساتھ انسان جیتا ہے اور دوستوں اور رشتہ داروں سے یہ امید رکھتا ہے کہ وہ بھلے برے وقت میں اس کے کام آئیں گے تو یہ بھی دیکھتا ہے کہ بھلے وقت میں تو لوگ ساتھ ہوتے ہیں جب کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا لیکن برے وقت میں سب دور دور بھاگ جاتے ہیں کہ کہیں وہ لوگ بھی اس کے ساتھ مصیبت میں نہ گھر جائیں۔ شاید وہ اس لیے ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اس مصیبت زدہ کی نحوست ہم میں بھی سرایت کر جائے اور مدد کرنے کے سلسلے میں ہمارا کمایا ہوا روپیہ خرچ ہوجائے، اس لیے وہ نہایت سنگدلی سے یہ تباہی کا منظر دیکھتے ہیں اور چپ رہتے ہیں اور ہمدردی کے دو لفظ بھی نہیں بولتے۔ ایسے ہی احساسات سے متاثر ہو کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ’’ارے بروٹس تم بھی!‘‘ جناب ثاقبؔ لکھنوی نے بہترین رموزوکنایات استعمال کر کے اسی مضمون پر ایک نہایت خوبصورت شعر کہا ہے جو ضرب المثل کی طرح استعمال ہوتا ہے۔
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
دل کے جذبات کا اظہار ثاقبؔ لکھنوی کی غزلوں کی اساس ہے۔ ان کا پورا نام میرزا ذاکر حسین اور تاریخی نام میرزا انتظار مہدی 1869)ء(تھا ان کا آبائی وطن طبرستان تھا۔ ان کا سلسلہ نسب حاجی علی قزلباش ماژندرانی سے ملتا ہے جو علی قلی خاں کے نام سے بھی مشہور ہوئے اور یہی ان کے مورث اعلیٰ تھے۔ شاہ طہماسپ صفوی کے زمانے میں حاجی صاحب دربار شاہی کے خاص امراء میں شمار کئے جاتے تھے۔ پندرہویں صدی میں ثاقبؔ کے اسلاف کو ایران میں معاشی جدوجہد سے دوچار ہونا پڑا۔ اور آخر انہوں نے ایران کی سکونت ترک کی اور ہندوستان کا رخ کیا۔ تجارت کا مال و اسباب لے کر آئے اور یہاں اکبرآباد (آگرہ) میں قیام کیا۔ آگرہ اس وقت ہندوستان کا پایہ تخت تھا اور تمام فضلاء اور صاحبان علم و فن موجود تھے۔ ثاقبؔ کے خاندان کی وجاہت ہندوستان میں بھی باقی رہی اور ذاتی قابلیت اور علمی فضیلت کے سبب مغل دربار کے رؤساء میں ان کے بزرگ شامل ہوگئے اور مختلف جلیل القدر عہدوں پر فائز رہے۔ کچھ افراد کو کارہائے نمایاں انجام دینے کے سبب انعامات اور خلعت بھی عطا ہوئے۔
ہندوستان میں برطانوی تسلط کے بعد بھی ان کے بزرگوں کا سرکار میں میں رسوخ باقی رہا اور ثاقب کے والد مولوی آغا محمد عسکری قزلباش ایک زمانے تک انگریزی سرکار کے ملازم رہے۔ ان کے نام کے ساتھ قزلباش اس لیے لگا ہے کہ ایران کے شاہ اسمعیل صفوی کے زمانے میں اس نے اپنے سپاہیوں کی وردی میں سرخ رنگ کی ٹوپیاں رائج کیں تھیں۔ ’قزل‘ بمعنی سرخ اور ’باش‘ بمعنی سر کے ہیں۔ ان سپاہیوں کے افراد خاندان بھی قزلباش کہلائے۔
2 جنوری 1869ء کو صبح کے وقت ثاقبؔ پیدا ہوئے۔ یہ ابھی چھ ماہ کے تھے کہ بعض وجوہ کی بناء پر ان کے والد نے آگرہ کی سکونت ترک کردی اور مع اہل وعیال لکھنؤ میں بھی فراغت نصیب نہ ہوئی اور وہ الہ آباد چلے گئے۔ یہاں 15-16 برس رہنے کے بعد ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور ریاست بھوپال میں 1897ء میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور بڑی ناموری حاصل کی۔ ان کے بیٹے ثاقبؔ اور اہل خاندان لکھنؤ میں تھے اس لیے آخر عمر میں لکھنؤ واپس آگئے اور 26 اگست 1901ء کو انتقال کیا۔ والد کی وفات کے بعد عیال کی پرورش کی تمام ذمہ داری ثاقبؔ ہی پر آگئی۔ اس وقت ان کی عمر 32 برس کی تھی۔ خود ان کی بھی شادی 1891ء میں ہوچکی تھی۔
ثاقبؔ کی ابتدائی تعلیم قدیم طریقہ پر ہوئی تھی۔ عربی، فارسی اور اردو میں استعداد حاصل کی تھی اور والد کے اصرار پر آگرہ کے سینٹ جانس کالج سے انگریزی میں انٹرنس پاس کیا تھا۔ وہیں ان کی ملاقات صفیؔ لکھنوی اور ذکیؔ مرادآبادی سے ہوئی۔ یہ دونوں حضرات سخندانی میں ماہر، ادیب اور انشاء پرداز تھے۔ ثاقبؔ کو ان کی صحبت جو ملی تو ان کی شاعری پر مائل طبیعت کے خوب جوہر کھلے۔ آگرے میں تعلیم مکمل کر کے جب وہ واپس لکھنؤ آئے تو ان کی ملاقات راجہ محمودآباد (ضلع سیتا پور۔ یوپی) محمد امیر حسن خاں بہادر سے ہوئی اور انہوں نے ازراہ قدردانی ریاست کے تمام ادبی امور ثاقبؔ کے سپرد کردیئے اور ان کے نام 50 روپیہ ماہانہ کا وثیقہ جاری کردیا۔ لیکن خوشحالی نصیب نہ ہوئی۔ ایک مدراسی تاجر کی شراکت سے 1898ءمیں لکھنؤ میں کچھ تجارت شروع کی لیکن اس میں بہت خسارہ ہوا۔ آخر پریشان ہو کر 1906ء میں کلکتہ چلے گئے۔ وہاں سفیر ایران سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ثاقبؔ کی قابلیت دیکھ کر اپنا معتمد خاص مقرر کرلیا۔ اودھ کی شام کا یہ عادی شاعر زلف بنگال میں اسیر نہ ہوسکا۔ اتفاق سے دو برس بعد 1908ء میں راجہ محمود آباد نے ان کو پھر طلب کرلیا اور یہ واپس لکھنؤ آگئے۔ کلکتہ کی آرام دہ زندگی کو چھوڑ کر اسی وثیقہ میں عمر گزار دی۔
ثاقبؔ ایک ایسے کشمکش کے دور میں پیدا ہوئے تھے جو سیاسی، تہذیبی اور سماجی اعتبار سے انقلابات کا دور تھا۔ قدیم اقدار ٹوٹ رہی تھیں اور انگریزوں کے تسلط کے سبب نئی زندگی اور نئے نظریات ملک میں پھیل رہے تھے۔ دہلی، لکھنؤ کے ادبی مراکز بکھر چکے تھے۔ اہل زبان میں جس کو جہاں پناہ ملی وہیں کا ہو رہا۔ محمود آباد کی چھوٹی سی ریاست اور راجہ صاحب کی کرم فرمائی کو ہی ثاقبؔ نے غنیمت جانا۔
ثاقبؔ کو شاید ایک پرسکون ’’گھر‘‘ کا تصور ہمیشہ ستاتا رہا چنانچہ انہوں نے بہت سے اشعار نشیمن اور نشیمن کی بربادی پر کہے ہیں۔
اپنے بھی مجھ سے خوش نہ رہے باغ دہر میں
بگڑا کیا مجھی سے نشیمن بنا ہوا
ثاقبؔ ایک نہایت بااخلاق، وضعدار، سادگی پسند اور مکسر مزاج شخصیت کے مالک تھے۔ تحسین و ستائش سے دور بھاگتے تھے۔ لباس بھی بہت سادہ پہنا کرتے تھے۔ بسا اوقات اپنے خیالات میں گم کھوئے کھوئے رہتے تھے۔ حقہ کا شوق تھا اور حقہ نہ ملتا تو سگریٹ پر اکتفا کرتے تھے۔ کبھی کبھار پان بھی کھا لیتے تھے ملاقاتیوں سے زیادہ بے تکلف نہ ہوتے تھے بلکہ نہایت متانت اور سنجیدگی سے گفتگو کرتے تھے۔ ان کے بے تکلف دوستوں کی تعداد بہت کم تھی جن میں ہنسی مذاق کر لیتے تھے۔
ثاقبؔ دور انحطاط کے شاعر ہیں۔ چونکہ دردوغم اور محرومی کا احساس زوال پذیر معاشرے میں زیادہ ہوتا ہے اس لیے ان کے کلام میں زندگی کے بہت سے تلخ حقائق ملیں گے۔ ان کی شاعری عہد قدیم سے ٹوٹ کر عہد جدید سے جاملی ہے۔ لکھنؤ میں اس وقت ناسخؔ کے انتقال کو پچاس برس ہوچکے تھے۔ لیکن ان کی شاعری اور تغزل کا غیر جذباتی رنگ لوگوں کے ذہن پر چھایا ہوا تھا اس لیے ثاقبؔ کے بعض جگہ ایسے مضامین کے اشعار ملتے ہیں جو غالباً مقامی لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کہے گئے ہیں ورنہ ان کا اصلی رنگ وہی سوزوگداز ہے جو ان کے دل میں بسا ہوا تھا اور کلام کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ثاقبؔ کے احساس کی شدت، تخیئل کی قورت اور زبان کی لطافت کی وجہ سے ان کی بعض غزلیں ادب میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ لکھنؤ میں غزل کو ایک نئی سمت دینے والوں میں ثاقبؔ ہراوّل دستہ میں نظر آتے ہیں ملاحظہ ہو:
جلوۂ حسن اک اشارے میں بہت کچھ کہہ گیا
میں نہیں سمجھا مگر ہاں دل تڑپ کر رہ گیا
حادثوں کے زلزلوں سے جام دل چھلکا کیا
ایک چلو خون ہی کیا بہتے بہتے بہہ گیا
کون سی آب و ہوا میں جا کے ڈھونڈوں دل کو میں
یا دھواں بن کر اڑا یا اشک بن کر بہہ گیا
ثاقبؔ کی مندرجہ ذیل غزل بہت مشہور ہوئی ہے جس کو گلوکارہ رؤف نے سازوآواز سے آراستہ کر کے پیش کیا ہے اور جو غزل کے قدردانوں کے حلقے میں بہت مقبول ہے۔
کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے
جوانی جو رہتی تو پھر ہم نہ رہتے
ان کی غزلوں کے کچھ بہترین اشعار یہ ہیں:
کہنے کو مشت پر کی اسیری تو تھی مگر
خاموش ہوگیا ہے چمن بولتا ہوا
دل کے قصے کہاں نہیں ہوتے
ہاں وہ سب سے بیاں نہیں ہوتے
بہت سی عمر مٹا کر جسے بنایا تھا
مکاں وہ جل گیا تھوڑی سی روشنی کے لئے
80 برس کی عمر پانے کے بعد ثاقبؔ، جن کو زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا اپنی داستاں غم بزبان شعر کہتے کہتے 1949ء میں ابدی نیند سوگئے۔ دارالتصنیف و تالیف محمود آباد نے ان کا دیوان ’’تجلائے شہاب ثاقب‘‘ 1936ء میں شائع کیا۔ دیوان کے نام کے اعداد 1355ہیں جو ہجری سن اشاعت ہے۔
ان کے دیوان میں ایک کیمرے سے کھنچی ہوئی تصویر دی ہے جو ان کے داہنے رخ سے لی گئی ہے۔ جو غالباً دیوان کی اشاعت سے پہلے کی ہے۔ ثاقبؔ کی ایک آخر عمر کی تصویر ڈاکٹر حمایت علی صاحب کے کتب خانے سے ملی جس کو مناسب ترمیمات کے بعد رنگوں سے آراستہ کر کے پیش کیا جارہا ہے۔ غالباً ان کے بائیں کان کی شکل سے کچھ عیب تھا جو دیوان میں دی گئی تصویر میں چھپایا گیا ہے اور دوسری تصویر میں نمایاں تھا۔ اس کی درستی کردی گئی ہے اور اب بقول شاعر:
تصویر میری عمر گزشتہ کی دیکھ جاؤ
تربت پہ اک چراغ ہے وہ بھی بجھا ہوا
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets