aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اس مجموعہ میں حضرت آسی کے منتخب کلام کو لیا گیا ہے ۔ ان کا شمار ان صوفیوں اور خانقاہ نشینوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو شعر و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے ہمیشہ شاعری کے منصب و مقصد کو پیش نظر رکھا اور شعر کو لفظی بازیگری کا نمونہ نہیں بننے دیا۔ تصوف نے ان کے رنگ تغزل کو پاکیزگی اور ہردلعزیزی عطا کی ۔ مقدمہ میں طیب ابدالی ریڈر شعبہ اردو مگدھ یونیورسٹی نے شیخ آسی اور ان کے تغزل پر شاندار بحث پیش کی ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے نہ صرف ان کے فن بلکہ ان کی شخصیت سے بھی واقفیت مل جاتی ہے۔ اس کے بعد منظوم کلام کا آغاز ہوتا ہے۔ ابتدا حروف تہجی کا پہلا لفط الف ردیف سے ہوتی ہے ۔ اس تسلسل کی انتہا کے بعد کچھ رباعیات ، سلام وغیرہ ہیں۔ اشعار کے اوزان میں روانی ہے، لہٰذا پڑھنے میں سرور محسوس ہوتا ہے۔
ٓسی غازی پوی کا شمار اردو کے ممتاز ترین شاعروں میں ہوتا ہے ۔ ان کی پیدائش ۲۱ دسمبر ۱۸۳۴ کو سکندر پور ضلع بلیا (یوپی) میں ہوئی ۔ نام محمد عبدالعلیم تھا ۔ پہلے عاصی تخلص اختیار کیا پھر آسی ۔ ابتدائی تعلیم اپنے نانا سے حاصل کی اس کے بعد جونپور چلے گئے اور مولانا عبدالحلیم فرنگی محلی سے معقولات کی تعلیم حاصل کی ۔ عاصی ایک ماہر طبیب بھی تھے ۔ انہوں نے طب کی کوئی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی بلکہ اپنے ذوق اور ذاتی مطالعے سے اس فن میں مہارت حاصل کی ۔ طالب علمی کے زمانے ہی سے شعر وسخن میں دلچسپی تھی ۔ ناسخ کے شاگرد افضل الہ آبادی سے مشورہ سخن کیا ۔ آسی کا دیوان ’’ عین المعارف ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ۔ ۲۴ جنوری ۱۹۱۷ کو غازی پور میں انتقال ہوا ۔
آسی کی شاعری متصوفانہ فکر کا تخلیقی بیان ہے ۔ آسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ میر درد کے بعد تصوف کے موضوعات کو شاعری میں برتنے والے وہ سب سے کامیاب شاعر ہیں ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets