aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
داغ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے۔ داغ نے اپنی شاعری میں عاشقانہ زندگی کی بہترین مرقع کشی کی ہے اور ان کی کہی ہوئی غزلیں اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ اُن کے اشعار میں ترنم ، دلکشی اور سوز و گداز بدرجہ اتم موجود ہے۔ داغ نے غزل جیسی روایتی صنف سخن میں ایک دلکش اور منفرد اسلوب کی بنیاد ڈالی ہے ۔ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی داغ کی شاعری اپنا خاص اثر رکھتی ہے۔ داغ کو دو لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔ ایک تو بلحاظ زبان، کہ ان کے ساتھ دہلی اور دوسرے لکھنوی شاعری کے آخری اثرات ان کی ذات میں جمع ہو گئے۔ گویا داغ کی غزل میں دہلی اور لکھنو کا امتزاج ہے۔ عشق و عاشقی ان کے لیے ایک سنجیدہ، متین یا مہذب طرز عمل نہیں بلکہ کھیلنے اور چسکے کی چیز ہے۔ انہیں نہ احترام عشق ہے اور نہ پاس ناموس، بس اپنا مطلب نکالنے سے غرض ہے۔ اسی لیے محبوب سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ عاشق جو مومن کے یہاں محض ہرجائی تھا وہ داغ کے یہاں ہوس پرست بلکہ رنڈی باز کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے ابتذال ، عریانی اور فحاشی سبھی کچھ موجود ہے۔ زبان میں صفائی کے ساتھ ساتھ محاورہ بندی کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ جو کہ استاد ذوق کا اثر ہے۔زیر نظر کتا ب داغ دہلوی کا منتخب کلام ہے۔ جس کو مسعود الحسن صدیقی نے مرتب کیا ہے۔
Nawab Mirza Khan Dagh Dehlavi (1831-1905), was born and brought up in the red fort of Delhi where his mother was married to prince Mirza Mohammad Sultan, son of Bahadur Shah Zafar. After his father’s death, he had to leave the red fort, and after the fall of Delhi in 1857, he had to move to Rampur where he lived in comfort for more than a decade. Later, his changing conditions, for good or bad, took him to other centres of renown like Lucknow, Patna, Calcutta, and Hyderabad.
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets