aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سید محمد میرؔ نام سوز تخلص ان کے والد سید ضیاء الدین ایک بزرگ شخص تھے ۔ اصلی وطن ان کے بزرگوں کا بخارا تھا دہلی میں قراول پورہ (قراول باغ) میں رہتے تھے پہلے میر تخلص کرتے تھے لیکن میرؔ تقی کی شہرت کے باعث اسے ترک کردیا اور سوز تخلص اختیار کیا ۔ خود کہا ہے ۔ کہتے تھے پہلے میرؔ تب نہ ہوئے ہزار حیف اب جو کہے ہیں سوز سوز یعنی سدا جلا کرو آزاد منش آدمی تھے عمر بھی خاکساری سے بسر کی ۔ دہلی کے تباہ ہونے سے پہلے غالباً 1168ھ مطابق1754ء )فرخ آباد گئے اس کے بعد فیض آباد اور پھر 1191ء میں لکھنو آگئے تھے مگر وہاں چندے قسمت راس نہ آئی تو 1212ھ مطابق1797ء آصف الدولہ کی وفات کے بعد مرشد آباد چلے گئے یہاں بھی بخت نارسا رہا تھا پھر لکھنؤ واپس آئے لیکن زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ راہی ملک بقا ہوئے 1213ھ مطابق1798ء ۔ میرؔ موصوف خط شفیعا و نستعلیق لکھنے میں کامل تھے ۔ شہ سواری اور فنون سپہ گری میں ماہر تھے ۔ ورزش اور تیر اندازی کا بہت شوق تھا ۔ ستار نوازی میں بھی دست رسا رکھتے تھے ۔ کلام ان کا بہت سیدھا سادا تھا تکلف اور تصنع نام کو نہیں یہاں تک کہ تشبیہہ اور استعارے اضافت اور فارسی ترکیبیں بھی شاد ہی پائے جاتے ہیں جو کچھ لطف ہے وہ محض صفائی محاورہ اور شیرینی زبان کا ہے طرحیں بھی آسان ہی اختیار کرتے ہیں ۔ اکثرردیف کو نظر انداز کرکے قافیے پر اکتفا کرتے ہیں سوزؔ اس سادگی کے قائل تھے جو صرف سادہ ہندی الفاظ سے پیدا کی جائے میرؔ نے اجتہاد کیا یعنی فارسی ترکیبوں سے بھی کام لیا اس لیے میرؔ کے یہاں خوش نمائی زیادہ ہے ۔ دیوان بہت بڑا نہیں ہے ۔ اس میں غزلیات زیادہ ہیں ایک مثنوی ہے اور تھوڑی بہت رباعیاں اور چند مخمس پڑھنے کا انداز خاص تھا کہ نفس مضمون کے مانند اداکاری بھی کرتے تھے گویا اس طرح اپنے کلام مںی زور اثر پیدا کردینا چاہتے تھے قدیم وار متروک الفاظ کا استعمال بھی ان کے یہاں زیادہ تھا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets