aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اس کتاب میں اردو انتقاد سے متعلق مباحث ہیں ۔ مصنف نے انتقاد کے نشیب و فراز تاریخ اور دبیر و اقبال جیسے اہم اشخاص کے کلام میں علامتی اہمیت ، فنون لطیفہ، سخن فہمی پر بہترین مباحثہ کیا ہے ۔ نقاد کی ذمہ داری ہوتی ہے عبارتوں میں اشارات و کنایات رموز و علامات کا حسن و قبح تلاش کرنا مگر وقت کے ساتھ اردو انتقاد کا مزاج بدل گیا ہے اور اس کا معیار بھی ۔ اس دور میں عبارتوں میں حسن و قبح کے بجائے محض کمیاں تلاش کی جاتی ہیں اور ان کمیوں کو اچھالا جاتا ہے۔ کتاب ھٰذا میں ایسے انتقاد پر تنقید کی گئی ہے اور تنقید برائے تعمیر کے اصول کو اردو ادب کی زینت کہا ہے۔ کتاب کی ابتدا " انتقاد کا منصب" سے کرکے بتایا ہے کہ رموز و علامات کو دوسروں کی بات سمجھنے اور اپنی بات دوسروں کو سمجھانے کے لئے بہترین وسیلے کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اردو میں جن لوگوں نے ایک وسیع تر ادبی ، سماجی اور تہذیبی آگہی کےساتھ تنقید لکھی ہے ان میں ایک نام عابد علی عابد کا بھی ہے۔ عابد علی عابد اردو کے ساتھ فارسی اور انگریزی زبان وادبیات کے واقف کاروں میں بھی تھے اسی وجہ سے ان کا تنقیدی ڈسکورس ان کے عہد میں لکھی جانے والی روایتی تنقید سے بہت مختلف نظر آتا ہے۔
عابد علی عابد نے شاعری بھی کی ۔ ان کے کئی شعری مجموعے بھی شائع ہوئے لیکن ان کی تنقید ان کی تخلیقی کارگزاریوں پر حاوی رہی۔ عابد علی عابد 17 ستمبر 1906 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد فوج میں ملازم تھے ۔ لاہور سے ایل ایل بی تعلیم حاصل کی اور گجراب میں وکالت کرنے لگے لیکن ان کا علمی اور ادبی ذوق انہیں لاہور کھینچ لایا ۔ پنجاب یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کیا اور دیال سنگھ کالج لاہور میں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ 20 جنوری 1971 کو لاہور میں انتقال ہوا۔ عابد علی عابد کی تصانیف کے نام یہ ہیں : اصول انتقاد ، ادب کے اسلوب ، شمع ، ید بیضا ، سہاگ ، تلمیحات اقبال ، طلسمات ، میں کبھ غزل نہ کہتا ، بریشم عود ، انتقاد ۔ وغیرہ ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets